پاکستان

امپورٹڈ وزیر خارجہ کا واحد مقصد امریکا کو واپس لاکر اڈے دینا ہے، شیریں مزاری

عمران خان کا ’غلامی نہیں آزادی‘ کا بیانیہ آیا تو امریکا کو اڈے دینے کا رجیم چینج کا مقصد پورا نہیں ہو سکا، رہنما پی ٹی آئی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری نے کہا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر عدم استحکام پیدا کر رہی ہے اور لگتا ہے امپورٹڈ وزیر خارجہ کا واحد مقصد کسی طرح امریکا کو سرحدوں میں واپس لاکر اڈے دینا ہے۔

اردو نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں شیریں مزاری نے ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدم استحکام جان بوجھ کر پیدا کیا جارہا ہے کیونکہ یہ جو حکومت کی تبدیلی ہوئی ہے، اس میں ایک معاملہ امریکا کی پاکستان میں موجودگی اور اڈے دینا تھا تو یہ بہانہ مل رہا ہے کیونکہ ان کی کوئی اور چیز تو چلنی نہیں ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ عمران خان کا ’غلامی نہیں آزادی‘ کا بیانیہ آیا تو امریکا کو اڈے دینے کا رجیم چینج کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہو سکا۔

انہوں نے کہا کہ اب اگر یہ افغانستان کو غیر مستحکم کریں گے اور پھر امریکا نے بھی کہا ہے کہ وہ سرحدوں کی سیکیورٹی میں پاکستان کی مدد کریں گے، تو آپ کی اتنی بڑی فوج ہے، باڑ لگائی ہوئی ہے، جو پتا نہیں اب کون توڑ رہا ہے اور آپ کارروائی نہیں کرتے، تو آپ کو بارڈر سیکیورٹی مستحکم کرنے کے لیے امریکا سے امداد کی ضرورت ہے؟

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ جس طریقے سے چیزیں جارہی ہیں مجھے شک ہے کہ یہ سب ایک مقصد کے تحت کیا جارہا ہے۔

سیکیورٹی پالیسی پر بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ آپ کے پاس انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے کیونکہ رجیم چینج کے بعد تمام ریاستی اور حکومتی اداروں کی توجہ اس پر ہے کہ عمران خان کو کیسے بدنام کریں جس کی وجہ سے یہ ناکامی ہو رہی ہے۔

خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی نہ کوئی خارجہ پالیسی ہے نہ سیکیورٹی پالیسی اور لگتا ہے کہ امپورٹڈ وزیر خارجہ (بلاول بھٹو زرداری) کا واحد مقصد یہ ہے کہ کس طرح امریکا کو واپس سرحدوں پر لائیں اور اڈے دے دیں۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ ان کی کوئی پالیسی ہی نہیں تو اہلیت کہاں سے آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ بالکل تباہ ہو چکا ہے، کوئی بیانات درست نہیں آتے بس ایک دو بیانات بھارت کے خلاف آجاتے ہیں۔

شیریں مزاری نے کہا کہ افغانستان پر ہماری کوئی پالیسی نہیں ہے اور اگر کوئی ہے تو بڑی چھپی ہوئی ہے کیونکہ وہ پالیسی ہم نے نہیں سنی ورنہ پارلیمان میں آکر بیان دیتے مگر انہوں نے کوئی بیان نہیں دیا اس لیے وزارت خارجہ بالکل تباہ ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے خاندان بھی تھے جو پاکستان چھوڑ کر باہر چلے گئے اور اگر وہ پاکستانی ہیں تو ان کو واپس لانا پڑے گا لیکن ان سے عزم لیں کہ وہ آئین کو تسلیم کریں گے اور ہتھیار رکھیں گے۔

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ ہماری حکومت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور میں نے اس کے ایک اجلاس میں شرکت کی تھی اور اس میں کابینہ اراکین، قبائلی علاقوں کے اراکین قومی اسمبلی اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض سمیت فوجی قیادت بھی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ان قبائلی علاقوں کے جو لوگ ہیں ان کو درست خدشات تھے کہ ’انہوں‘ نے ہمارے اہل خانہ پر حملے کیے ہیں ہم نے سامنا کیا ہے اور اب واپس آئیں گے تو پھر خون خرابہ ہوگا تو اس لیے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔

شیریں مزاری نے مزید کہا کہ اس پر عمران خان نے فیصلہ کیا تھا کہ ان علاقوں کے جو اراکین قومی اسمبلی ہیں ان کے ساتھ فوج بیٹھے اور ایک جامع پالیسی تشکیل دیں کہ اگر ٹی ٹی پی سے بات چیت کرنی ہے اور ان کو واپس آباد کرنا ہے تو کس طرح کریں گے مگر پھر ہماری حکومت کو ہٹا دیا گیا اور باقی نتیجہ سامنے ہے کہ نہ ادھر نہ ادھر۔

انہوں نے کہا کہ پہلے کہا گیا کہ مذاکرات ہو رہے ہیں مگرپتا نہیں مذاکرات کس چیز پر ہو رہے تھے، پھر کہا کہ مذاکرات ناکام ہوگئے مگر آپ نے کوئی اقدامات بھی نہیں اٹھائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اصل سوال تو یہ ہے کہ آپ نے جس سرحد پر اتنا خرچ کیا ہوا ہے وہ ناکام کیوں ہو رہی ہے اور آپ ویڈیو اور آڈیوز کے تماشوں سے نکلیں اپنی انٹیلی جنس ٹھیک کریں۔

نئی عسکری قیادت سے رابطوں کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا نئی قیادت سے کوئی رابطہ نہیں، صدر مملکت عارف علوی اپنی طرف سے کچھ کرنا چاہ رہے تھے مگر اس حوالے سے کیا ہوا کیا نہیں ہوا ابھی تک ہمیں نہیں پتا لیکن ہمارا فوجی قیادت سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ابھی تک پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ اعظم سواتی کے ساتھ جو کیا گیا اور ابھی تک دیگر لوگوں کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے اس میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم حکومت میں تھے تو کمیٹی کے اجلاس، پارلیمانی سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے میرے بہت اختلافات ہوئے تھے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ کچھ مسائل پر جنرل قمر جاوید باجوہ سے سخت اختلافات ہوتے تھے اور آخری اجلاس میں بھی ان سے اختلافات ہوئے تھے جب سائفر پر اجلاس شروع ہوا اور بات امریکا تک چلی گئی تھی مگر اجلاس ختم ہونے جا رہا تھا پھر بھی ہمارے دلائل چل رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کا خواب وزیراعظم بننا ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ مداخلت کر رہی ہوگی تو دیکھ رہے ہوں گے کہ بلاول امریکا کے سامنے سب سے زیادہ جھک جاتا ہے تو اچھا بچہ ہے شاید وزیراعظم بن جائے مگر ایسا ہوگا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے وزیراعظم نہیں بن جاتے کہ اسٹیبلشمنٹ جو چاہے کیونکہ قوم اب جاگ چکی ہے۔

ٹیلر سوئفٹ کی بلی کروڑوں افراد سے زیادہ دولت مند

سوچے بغیر شادیاں کرنے پر شوبز شخصیات کی طلاقیں ہوتی ہیں، منشا پاشا

گوادر: مقامی آبادی سے کیے گئے وہ وعدے جو ہم نے بھلا دیے