پاک بحریہ کا زمین کے حصول کیلئے براہ راست حکومت سے رجوع کرنے کا معاملہ، درخواست سماعت کیلئے منظور
سپریم کورٹ نے پاک بحریہ کی جانب سے اپنے حق میں 10 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی کی الاٹمنٹ کے لیے براہ راست صوبائی حکام سے رجوع سے متعلق اپیل کٍو سماعت کے لیے منظور کر لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپیل کی جب سماعت ہو گی تو عدالت عظمیٰ اس بات پر بھی غور کرے گی کہ آئین کے آرٹیکل 173 کو آرٹیکل 245(ون) کے ساتھ ملا کر پڑھنے کو نظر انداز کرتے ہوئے کیا زمین مسلح افواج کی کسی برانچ کو الاٹ کی جا سکتی ہے۔
آئین کا آرٹیکل 173 جائیداد کے حصول اور معاہدے کرنے کے اختیارات سے متعلق ہے جب کہ آرٹیکل 245(ون) مسلح افواج کے کردار کی وضاحت کرتا ہے جو وفاقی حکومت کی ہدایت پر بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کرے گی اور قانون کے مطابق جب اسے حکم دیا جائے تو شہری انتظامیہ کی مدد کے لیے کام کرے گی۔
دوران سماعت عدالت اس سوال پر غور کرے گی کہ کیا وفاقی حکومت دفاعی مقاصد کے لیے زمین کی الاٹمنٹ سے متعلق مسلح افواج کی برانچز کے معاملات کو ریگولرائز کرنے میں اپنی آئینی ذمہ داری کی انجام دہی میں ناکام رہی ہے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے تربت بینچ نے 23 اکتوبر 2017 کو اس حولاے سے درخواست کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد شبیر احمد کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس کی سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے کی۔
اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے جسٹس من اللہ نے بلوچستان حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ آرٹیکل 173 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی زمین الاٹ نہ کی جائے، اس کے علاوہ صوبائی حکومت کو ہدیت کی گئی کہ شہریوں کے حقوق کی پامالی روکی جائے جنہیں ان کی زمین کے بدلے معاوضہ نہیں دیا گیا اور نہ ہی ان کی جائیدادوں کے حصول کے لیے قانونی کارروائی کی گئی۔
تنازع پاکستان نیوی کے حق میں 10 ہزار 27 ایکڑ زمین لیز پر دینے سے متعلق ہے، یہ الاٹمنٹ بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر نے 15 مئی 2009 کے آرڈر کے ذریعے کی تھی، متنازع زمین بلوچستان کے کوہ امام وارڈ، ایئرپورٹ وارڈ اور شہید وارڈ کی حدود میں آتی ہے، پاکستان نیوی پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے زمین کی الاٹمنٹ کے لیے براہ راست ریونیو حکام سے رابطہ کیا۔
دوسری جانب، درخواست گزار نے ہائی کورٹ سے آئینی دائرہ اختیار کے استعمال کی استدعا کرتے ہوئے الزام لگایا کہ انہیں اور دیگر افراد کو بغیر معاوضے کے ان کی زمین سے زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے۔
اپنے فیصلے میں بلوچستان ہائی کورٹ نے نوٹ کیا کہ سیٹلمنٹ حکام نے تصدیق کی کہ 4 ہزار 286 ایکڑ زمین عام شہریوں کے قبضے میں ہے جنہیں معاوضہ نہیں دیا گیا، تاہم ہائی کورٹ نے اپنے دائرہ اختیار کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔
تحصیل دار، سیٹلمنٹ سرکل تربت نے ایک رپورٹ بھی پیش کی جس میں موضع شہید وارڈ میں 242 ایکڑ زمین اور ضلع کیچ کے موضع ایئرپورٹ وارڈ میں 500 ایکڑ صوبائی حکومت کی ملکیت اراضی پاک بحریہ کے حق میں منتقل کرنے کی تصدیق کی گئی اور کوہہ امام وارڈ کی زمین کی حتمی تصدیق ابھی ہونی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے نوٹ کیا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بقیہ زمین پر ابھی تک تصفیہ نہیں ہوا، رپورٹ کے مطابق پاکستان نیوی نے مبینہ طور پر الاٹ کی گئی/لیز پر دی گئی زمین پر عمارتیں تعمیر کیں۔
عدالت نے یہ بھی یاد دلایا کہ بار بار استفسار کے باوجود بھی بورڈ آف ریونیو بلوچستان متعلقہ قانون نہیں دکھا سکا جس کے تحت پاکستان نیوی کو زمین کی الاٹمنٹ کے لیے براہ راست ریونیو حکام سے رجوع کرنے کا اختیار دیا گیا ہو یا جس کے مطابق صوبائی حکومت کو اختیار دیا گیا ہو کہ وہ صوبائی حکومت کو دی گئی زمین کو پاکستان نیوی کو الاٹ یا لیز پر دے۔
عدالت نے وفاقی اور بلوچستان حکومتوں کو اپنے اپنے جوابات جمع کرانے کا حکم دیا، اس کے ساتھ ہی بلوچستان حکام کو بھی ہدایت کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ شہریوں کو آئین کے تحت فراہم کردہ بنیادی حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔
عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق صوبائی حکومت اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ آرٹیکل 173 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی زمین الاٹ نہ کی جائے۔