پاکستان

عام انتخابات اکتوبر میں ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت ہی ہوں گے، احسن اقبال

سپریم کورٹ بتائے ہماری چھوٹی چھوٹی باتوں کا نوٹس لیا جاتا ہے، عمران خان کے پاس کونسی سلیمانی ٹوپی ہے ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا، وزیر منصوبہ بندی

وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات اکتوبر 2023 میں ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری کے تحت ہی ہوں گے۔

ساتویں ڈیجیٹل آبادی شماری کے لیے ماسٹر ٹرینرز کی تربیت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں سال اپریل میں حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ساتویں ڈیجیٹل مردم شماری کے عمل میں تیزی لائی گئی ہے اور تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بشمول وزارت آئی ٹی، نیشنل ٹیلی کام کارپوریشن (این ٹی سی)، نادرا، پاکستان شماریات بیورو وزات منصوبہ بندی کے زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔

وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ پارلیمنٹ اگست 2023 میں اپنی مدت پوری کرے گی اور اگلے عام انتخابات اسی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب سے بلوچستان اور سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبے ہیں اور دونوں صوبوں کو بحالی کی لیے مزید 6 سے 8 ماہ لگیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپریل یا مئی میں نئی مردم شماری مکمل ہونے کے بعد ہی نئے انتخابات اکتوبر میں ہو سکتے ہیں اور پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نئے اعداد و شمار کی بنیاد پر نئی حد بندیوں کے لیے مزید چار ماہ درکار ہوں گے۔

احسن اقبال نے کہا کہ حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے 34 ارب روپے خرچ کیے ہیں اور گڈ گورننس کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کے پاس آبادی اور اس کی تقسیم کے بارے میں درست ڈیٹا ہونا ضروری ہے۔

’شرح یہی رہی تو 2050 تک ملکی آبادی 34 کروڑ تک پہنچ جائے گی‘

گزشتہ مردم شماری کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ گزشتہ مردم شماری (1998-1981) میں آبادی میں اضافہ کی شرح 2.6 فیصد تھی اور (2017-1998) میں آبادی میں اضافے کی شرح 2.4 فیصد تھی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے تازہ مردم شماری کرانا وقت کی اشد ضرورت ہے جس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں آبادی میں اضافے کی شرح یہی رہی تو 2050 تک پاکستان کی آبادی 34 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔

وزیر منصوبہ بندی نے پی ٹی آئی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں پنجاب برائے فروخت کا بورڈ لگادیا گیا، پی ٹی آئی کے دور میں عثمان بزدار کی قیادت میں بننے والی حکومت کے 4 سال میں پنجاب کی انتظامیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، 8، 8، 9، 9 آئی جی اور چیف سیکریٹری، درجن درجن سیکریٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ایس پیز اس طرح ٹرانسفر ہوتے تھے کہ جس طرح سے انسان ٹیشو پیپرز بھی استعمال نہیں کرتا لیکن کبھی کسی نے اس چیز کا نوٹس نہیں لیا۔

انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار کے دور حکومت میں اینٹی کرپشن پنجاب کو انتقامی کارروائیوں کا محکمہ بنادیا گیا، جھوٹے مقدمات کے اندر لوگوں کو الجھایا جاتا رہا، وہاں پر کوئی اچھا افسر آجائے تو اس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے، اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔

’امپائر نیوٹرل ہو رہا ہے تو عمران خان کی چیخیں نکل رہی ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ آج پنجاب میں کوئی مستقل چیف سیکریٹری اور آئی جی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور پنجاب میں اس وقت لوٹ سیل لگی ہوئی ہے، جو غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں، جتنے غیر قانونی کام ہیں، رشوت لے کر انہیں ریگولرائز کرنے کے لیے ایجنٹ پھر رہے ہیں، پنجاب کے چپے چپے میں لوٹ مار کا ایسا نظام چل رہا ہے جس کی کہانیاں سن کر بندہ پریشان ہوجاتا ہے کہ کیا اس وقت اس ملک میں کوئی نظام نہیں ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ میں بڑے ادب کے ساتھ سپریم کورٹ پاکستان نے بھی پوچھنا چاہوں گا کہ ہماری تو چھوٹی چھوٹی باتوں کا نوٹس لیا جاتا ہے تو عمران خان کے پاس کونسی ایسی سلیمانی ٹوپی ہے کہ ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا، یہ توہین عدالت کریں، اس میں بھی ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا، یہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کریں تو اس میں بھی انہیں کوئی پوچھ نہیں سکتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے طاقت کے مراکز سے جتنی چھوٹ عمران خان کو ملی، ملک کے کسی سیاستدان کو نہیں ملی لیکن اس کے باجود بدترین کارکردگی رہی، پھر جب اسٹیبلشمنٹ نے دیکھا کہ ان کی ناکامی کا سارا بوجھ ان پر آرہا ہے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے اور ان کا یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔

ان کا سابق وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ عمران خان ساری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے تھے کہ کرکٹ میں نیوٹرل اور غیر جانبدار امپائر لے کر آئے تو آج جب اپنے ملک میں امپائر نیوٹرل ہو رہا ہے تو اس پر ان کو تکلیف ہو رہی ہے، ان کی چیخیں نکل رہی ہیں اور انہوں نے میر جعفر، میر صادق، نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے اور پتا نہیں کیا کیا بیانیہ بنادیا۔

’پی ٹی آئی کے جھوٹ اور مکر کی اصلیت عوام کے سامنے آچکی‘

وفاقی وزیر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت عمران خان کی سیاست پٹ گئی ہے، اس کا سب سے بڑا ثبوت کشمیر کے حالیہ بلدیاتی انتخابات کا پہلا اور دوسرا مرحلہ ہے جہاں ان کی حکومت ہے وہاں ان کی پارٹی کو صرف 30 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے جب کہ 70 فیصد نشستوں پر پی ٹی آئی کے مخالف امیدوار جیتے ہیں، یہ پی ٹی آئی کے خلاف بہت بڑا ریفرنڈم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ پی ٹی آئی کے جھوٹ اور اس کے مکر کی اصلیت عوام کے سامنے آچکی ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے جو قومی اداروں کے خلاف، ملک کے معاشی استحکام کے خلاف مہم چلائی اسے عوام نے مسترد کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معاشی پروگرام کی بحالی کے خلاف عالمی سطح پر بھارت نے ووٹ دیا اور ملک میں پی ٹی آئی نے اس کے خلاف کوشش کی، بھارت اور پی ٹی آئی پاکستان کے آئی ایم ایف پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک پیج پر تھے، پی ٹی آئی آج بھی سوشل میڈیا پر ملک کی معیشت کے حوالے سے پروپیگنڈا مہم چلا رہی ہے جو پاکستان کے دشمنوں کو چلانی چاہیے، پی ٹی آئی ہر وقت پاکستان کے لیے آنے والی امداد کو روکنے کی کوشش کرتی ہے، پاکستان کے استحکام کے خلاف پروپیگنڈا کرتی ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ میں آج سوال کرتا چاہتا ہوں کہ کیا عمران نیازی ملک سے بڑا ہے، کیا یہ ریاست پاکستان سے بھی بڑا ہے، جو لوگ عمران خان کی شخصیت پرستی میں مبتلا ہو کر اندھے ہوچکے ہیں، انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، پاکستان ہم سب کی انا سے بڑا ہے، ہم سب اپنی سیاست کریں لیکن پاکستان کے مفادات سے نہ کھیلیں، یہ ملک ہم سب کا ہے اور اس کے استحکام کے ساتھ ہی ہماری سیاست وابستہ ہے۔

’اپنے فیصلوں کی روشنی میں عام انتخابات کیلئے عمران خان کو صبر کرنا چاہیے‘

وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا غیر معمولی معاشی بحران سے گزر رہی ہے، پاکستان جیسے ملک کو نہایت ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بحران سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہم نے مردم شماری کی ٹریننگ کا آغاز کیا ہے، اس مردم شماری کے نتائج 30 اپریل تک آجائیں گے اور خود پی ٹی آئی حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں یہ فیصلہ کیا اور اس وقت کے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا تھا کہ آئندہ عام انتخابات نئی مردم شماری کے تحت 2023 کے اکتوبر میں ہوں گے، اگر ہم نئی مردم شماری کو چھوڑ کر نئے عام انتخابات کی جانب جائیں گے تو اس سے پاکستان کا اگلا الیکشن پہلے ہی متنازع ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت کسی نئے سیاسی تنازع کا متحمل نہیں ہوسکتا اور وہ فیصلے جو عمران خان نے خود مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے کیے اور جن کا اعلان اسد عمر نے خود کیا کہ نئے عام انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے، ان فیصلوں اور اعلانات کے روشنی میں پی ٹی آئی کو کچھ صبر کرنا چاہیے، اس مردم شماری کی روشنی میں الیکشن کمیشن حلقہ بندی کرے گا، اگست میں اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے کے بعد اکتوبر 2023 میں نئے عام انتخابات ہوں گے۔

’نئے الیکشن کے بعد کسی سیاسی تنازع کے متحمل نہیں ہوسکتے‘

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے کئی یوٹرن لیے، آج ایک مثبت یوٹرن لے لیں، اسمبلی میں واپس آئیں، پارلیمانی پارٹی کا حصہ بنیں جو انتخابات اصلاحات کے لیےمل کر کام کرے گی تاکہ الیکشن کو صاف شفاف بنانے میں تمام جماعتوں کی رائے شامل ہو۔

احسن اقبال نے کہا کہ ہم نئے عام الیکشن کے بعد کسی نئے سیاسی تنازع اور سیاسی بحران کے متحمل نہیں ہوسکتے، ہمیں ملک میں استحکام اور پالیسوں کا تسلسل چاہیے، یہ مردم شماری کا عمل گزشتہ حکومت میں شروع ہوا، ہم نے اس میں خلل نہیں ڈالا، اس کو جاری رکھا، کیونکہ قومی منصوبوں میں تسلسل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کاش گزشتہ حکومت نے بھی ہماری سابقہ حکومت میں شروع کیے گئے سی پیک سمیت دیگر معاشی منصوبوں میں تسلسل جاری رکھا ہوتا تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا جس پر آج ہم پہنچے ہوئے ہیں، اس وقت ملک میں انتشار پھیلانے والا پاکستان کا دوست نہیں دشمن ہوگا۔

قورمے کی ’توہین آمیز‘ ترکیب، سوشل میڈیا پر ہنگامہ، آخر اس میں ایسا کیا ہے؟

سپریم کورٹ کا حکومت کو آج رات تک ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم

شادی محبت کی ہو یا ارینج، رسک ہی ہوتی ہے، سجل علی