پاکستان کے 99 ارب ڈالر کے قرضوں کی ’ری اسٹرکچرنگ‘ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا
گزشتہ 7 سالوں میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں کئی گُنا اضافہ ہوا، ملک میں بحران اتنا شدید ہے کہ غیر ملکی قرضوں کی مکمل ادائیگی تقریباً ناممکن ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے 99 ارب ڈالر کے قرضوں کی ’ری اسٹرکچرنگ‘ کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر برائے تحقیق عمیر نصیر نے کہا کہ ملک میں بحران اتنا شدید ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صفر تک بھی پہنچا دیں تو بھی پاکستان غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی نہیں کرسکے گا۔
ملک کےقرضوں کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ میں عمیر نصیر اور ان کے ساتھی سعد ہاشمی نے بتایا کہ گزشتہ 7 سالوں میں بیرونی قرضے دوگنے ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی لازمی ہے، سال 2014 اور 2015 کے دوران قرض 65 ارب ڈالر (یعنی 24 فیصد جی ڈی پی) سے بڑھ کر سال 2021 اور 2022 میں 130 ارب ڈالر (یعنی 40 فیصد جی ڈی پی) تک پہنچ گیا ہے۔
سال 2012 اور 2013 سے سال 2017 اور 2018 کے دوران بانڈ مارکیٹ سازگار تھی جس کا مطلب پاکستان کی طرح قرض دہندگان کے لیے کم شرح سود ہوگا، اس اقدام کی وجہ سے اُس وقت کی حکومت کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ باقاعدگی سے بین الاقوامی بانڈز کا اجرا کرے۔
اس کے نتیجے میں یورو بانڈ اور بین الاقوامی سکوک کے ذریعے پاکستان کا قرضہ سال 2013 میں جون کے مہینے کے دوران ایک ارب 6 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 11 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
تاہم یہ آپشن کئی وجوہات کی بنا پر پاکستان کے لیے دستیاب نہیں ہے، بانڈ کی پیداوار میں عام طور پر اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے فنڈز میں اضافے کے لیے نئے بانڈ کا اجرا ناممکن ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملک میں کثیر الجہتی اور دوطرفہ قرضوں میں اضافہ ہوا ہے، 99 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں میں سے 42 فیصد کثیر الجہتی قرضے ہیں، یہ کثیر الجہتی قرضے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو ادا کرنے لازمی ہیں، اس کے علاوہ دوطرفہ قرضوں کا حصہ تقریباً 38 فیصد ہے۔
دوطرفہ قرضوں کی ادائیگی میں سب سے بڑا حصہ (23 ارب ڈالر) چین کا ہے، چینی بینکوں سے حاصل ہونے والے 6 ارب 7 کروڑ ڈالر قرضوں سمیت ایشیا کی سب سے بڑی معیشت پاکستان کا سب سے بڑا قرض دہندہ کے طورپر سامنے آیا ہے۔
عامر نصیر نے کہا کہ حکومت کو فوری طور پر قرضوں کی تنظیم نو کے لیے چین سے مدد لینی چاہیے، اس طرح کثیر الجہتی قرضوں کی ادائیگی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تجارتی قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے لیے سخت شرائط لاگو ہوتی ہیں مثال کے طور پر شرح میں اضافہ کرنا پڑسکتا ہے، لیکن حکومتوں کے درمیان قرضوں میں اضافے کی ری اسٹرکچرنگ پر سخت شرائط لاگو نہیں ہوسکتیں۔
مثال کے طور پر چین اور پاکستان کے مشترکہ اسٹریٹجک مفاد ہیں جو دوطرفہ تجارتی لین دین کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے، چینی صنعت کاروں نے طویل مدتی منصوبوں کے لیے پاکستان میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ سے بچانا چین کا تجارتی مفاد ہے۔
عامر نصیر نے مزید بتایا کہ ’میرے خیال میں پاکستان کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ یورو بانڈ کے سرمایہ کاروں کو قرضوں کو دوبارہ مرتب کرنے کے لیے راضی کرے کیونکہ اس کے لیے بانڈ ہولڈرز کی رضامندی لازمی ہے جو انتہائی مشکل کام ہے۔
رپورٹ کے مصنفین کا خیال ہے کہ آئندہ حکومت کو عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) سے کم از کم 15 ارب ڈالر کے قرض پروگرام پر دستخط کرنا ہوں گے۔
پاکستان کو چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور آئی ایم ایف کی قیادت میں اگلے 3 سے 5 سالوں کے لیے کم از کم 30 ارب ڈالر قرض کی ازسر نو ترتیب دینے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔