فیفا ڈائری (پانچواں دن): ماضی کے برعکس اس بار دن میں ایک سے زائد میچ کور کرنے پڑرہے ہیں
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔
کل کا دن بہت مزے کا بھی رہا اور مشکل بھی۔ کل ورلڈ کپ میں موجود بڑے ستاروں میں سے ایک لیونل میسی کی پریس کانفرنس تھی اور اس کے بعد ایران بمقابلہ انگلینڈ اور امریکا بمقابلہ ویلز میچ کور کرنا تھا اس وجہ سے کل مجھے بھاگنا بہت پڑا۔
اس ورلڈ کپ میں دیکھا جائے تو 2 ہی بڑے کھلاڑی ہیں ایک میسی اور دوسرے کرسٹیانو رونالڈو اور یہ ان دونوں کا آخری ورلڈ کپ ہوسکتا ہے۔ ان دونوں نے اب تک کوئی ورلڈ کپ نہیں جیتا اس وجہ سے اگر وہ یہ ورلڈ کپ جیت لیتے ہیں تو بہت بڑی بات ہوگی۔
کل ہونے والے میچوں کی بات کریں تو خلیفہ اسٹیڈیم میں ایران اور انگلینڈ کے درمیان میچ کھیلا گیا۔ اس میچ میں ماحول بہت زبردست تھا۔ شور اور ہنگامہ اتنا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ قطر کے میچ میں شائقین اتنے پُرجوش نظر نہیں آئے تھے لیکن کل تو ان میں بجلی بھری ہوئی تھی۔ ایسا ہی کچھ امریکا اور ویلز کے میچ میں بھی نظر آیا، لہٰذا پرسوں اور کل ہونے والے میچوں میں یہ واضح فرق تھا۔
کل ایران اور برطانیہ کے میچ میں ایک اہم بات یہ ہوئی کہ ایرانی کھلاڑیوں نے ایران میں سراپا احتجاج مظاہرین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے میچ سے قبل اپنا قومی ترانہ نہیں پڑھا۔ یہ ایک پیغام تھا کہ ان کے کھلاڑی کیا سوچتے ہیں۔ یہاں کئی لوگوں نے اس عمل کو کھلاڑیوں کی بہادری گردانا ہے۔ ایران میچ بہت بڑے فرق سے ہارا اور اس پر ان کے کوچ کا کہنا تھا کہ جو ہمارے ملک میں ہورہا ہے شاید اس کا بھی کھلاڑیوں پر اثرا ہوا ہے۔ لیکن یہاں لوگ ان پر تنقید سے زیادہ ان کی بہادری کی تعریف کررہے ہیں۔
قطر چھوٹا ملک ہے جس کا فائدہ یہ ہورہا ہے کہ پہلی مرتبہ آپ ورلڈکپ میں ایک ہی دن میں 2 میچ کور کرسکتے ہیں۔ بس یہ ہے کہ مجھے بھاگنا بہت پڑ رہا ہے۔
اس سے پہلے ہونے والے ورلڈ کپ میں ایک شہر میں میچ ہوتا تو دوسرا میچ اگلے دن دوسرے شہر میں ہوتا تھا۔ یوں سفر تو کرنا پڑتا تھا لیکن جلدی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اب چونکہ ایک ہی دن میں ایک سے زیادہ میچ ہورہے ہیں تو ہر میچ کور کرنے کے لیے بھاگنا پڑتا ہے۔
ورلڈ کپ کی رپورٹنگ کے لیے یہ بھاگ دوڑ پورے دن ہی لگی رہتی ہے۔ ساتھ ہی آپ کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کا معمول بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ صبح اٹھنے کے بعد آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کب سوئیں گے۔
بحیثیتِ رپورٹر یہ ورلڈ کپ ایک چیلنج ہے کیونکہ یہاں آپ ایک دن میں ایک سے زائد میچ کور کررہے ہیں یوں آپ کے پاس خبر پر کام کرنے کا وقت کم ہوتا ہے۔ آپ ایک میچ سے نکلتے ہیں تو تھوڑی ہی دیر بعد دوسرا میچ شروع ہوجاتا ہے، یوں آپ کو وہاں پہنچنا ہوتا ہے اور اس پر لکھنے کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔
رات کے میچوں میں تو ہماری ڈیڈ لائن میچ ختم ہونے کے فوراً بعد کی ہوتی ہیں۔ خاص طور پر پاکستانی وقت کے مطابق جو 6 اور 9 بجے والا میچ ہوتا ہے اس میں وقت بہت کم ملتا ہے کیونکہ وہاں پاکستان میں اخبار کا صفحہ تیار ہونا ہوتا ہے یوں آپ بس ہر وقت لکھ ہی رہے ہوتے ہیں۔ اب جو کام کرنا ہے وہ تو کرنا اور ورلڈ کپ پر آئے ہیں تو جتنا زیادہ کور کرسکیں وہ کور بھی کرنا ہے لیکن ان سب چیزوں سے قطع نظر اس کام میں مزہ ضرور آتا ہے۔
عمید وسیم ڈان اخبار میں اسپورٹس کے شعبے کے نگران ہیں، فٹبال سے شغف رکھتے ہیں اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے فٹبال کور کررہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔