پاکستان

آئی ایم ایف سے مذاکرات کا نواں دور تاخیر کا شکار

زیر التوا 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے نویں جائزے پر باضابطہ بات چیت کے شیڈول کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔

پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان جمعرات کو مذاکرات کا ایک اور دور ہوا لیکن رواں مالی سال کے لیے سیلاب سے متعلقہ مالی ضروریات کے بارے میں وضاحت اور درآمدی کنٹرول کے نتیجے میں آمدن میں کمی کے سبب زیر التوا 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے نویں جائزے پر باضابطہ بات چیت کے شیڈول کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن کے سربراہ نیتھن پورٹر کے ساتھ آن لائن ملاقات کے بعد ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ نویں جائزے کی تاریخوں کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی۔

وزارت خزانہ کے بظاہر مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورتحال کے پیش نظر ایک بیان میں اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے مکمل کرنے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔

اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہونے والی بات چیت 3 نومبر کو ری شیڈول کی گئی تھی اور پھر دونوں فریقین کے اندازوں میں فرق کے باعث یہ تاخیر کا شکار رہی۔

وزارت خزانہ نے کہا کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ رواں سال کے دوران سیلاب سے متعلق انسانی امداد کے اخراجات کے تخمینے کو ترجیحی بحالی کے اخراجات کے تخمینے کے ساتھ مستحکم کیا جائے گا، وزارت نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نے غریبوں بالخصوص سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے مقرر کردہ ہدف کے لیے اپنی رضامندی کا عندیہ دیا ہے۔

دونوں فریقین نے آئی ایم ایف کے جاری پروگرام پر ہونے والی پیش رفت بالخصوص میکرو اکنامک فریم ورک اور رواں سال کے اہداف پر سیلاب کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں 9ویں جائزے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے تکنیکی سطح پر مصروفیت کو تیزی سے مکمل کیا جائے گا۔

قوانین کے تحت تمام مالیاتی اور مانیٹری پالیسی اعدادوشمار (ماضی اور مستقبل دونوں) پر تکنیکی سطح پر اتفاق کیا جاتا ہے تاکہ پالیسی کی سطح پر معمولی ایڈجسٹمنٹ کی جاسکے اور پھر اسے منظوری کے لیے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے پاس لے جایا جائے۔

پاکستان اب بجٹ میں سیلاب سے متعلق تمام اخراجات کی نمائندگی کرے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ موجودہ غیر یقینی سیاسی صورتحال اور محصولات کی وصولی میں کمی کے رجحان کی وجہ سے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کچھ پالیسی اقدامات میں تاخیر ہوئی ہے، گو کہ حکام مالیاتی شعبے کے منافع اور اسٹیٹ بینک کے منافع سے زیادہ آمدنی سمیت اضافی محصولات کی تلاش میں ہیں، لیکن ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ ٹیکس کے نئے بوجھ پر کوئی بات نہیں ہوئی، ایک اور اہلکار نے کہا کہ کچھ بقایا مسائل بھی توانائی کے شعبے سے متعلق ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حکام نے پہلے ہی سیلاب سے ہونے والے نقصانات اور عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے کم از کم 11 فیصد کے ٹیکس پر قائم رہنے کے لیے کارکردگی کے معیار پر چھوٹ کی درخواستوں کا عندیہ دیا ہے۔

وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے اس ہفتے کے اوائل میں پارلیمانی پینل کو بتایا تھا کہ حالات مشکل ہیں لیکن ہمیں آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا ہوگا اور مزید ڈھانچہ جاتی ایڈجسٹمنٹ کرنی ہوں گی۔

پاکستان، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کے ہدف سے تقریباً 0.8 فیصد پیچھے تھا، جس کی بنیادی وجہ جی ڈی پی کی بحالی ہے جس نے معیشت کے حجم میں اضافہ کیا۔

دوسری طرف جولائی تا ستمبر میں اخراجات اہداف سے تجاوز کر گئے اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے محصولات کی وصولی کا رجحان کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

پاکستان، آئی ایم ایف سے کارکردگی کے معیار پر متعدد چھوٹ دینے کی خواہش کا اظہار کرے گا لیکن اسٹاف کی سطح پر اس حوالے سے دونوں فریقین کو کام کرنا ہوگا۔

عیسائیت کی تاریخ میں اس پتھر کی کیا اہمیت ہے؟

7 پاک دامن بہنوں کا آستان: آخر یہ جگہ کیا ہے؟

ترکیہ: اعلیٰ عدالت نے ٹی وی مبلغ کو 8 ہزار 658 برس کی سزا سنا دی