ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات مبہم ہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ریکوڈک ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات مبہم ہیں، ضروری نہیں سوالات ٹھیک نکتے پر بنائے گئے ہوں۔
سپریم کورٹ میں ریکوڈک سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ معدنیات ایکٹ 1948 کو 1973 کے آئین میں نہ وفاقی قانون کی لسٹ میں شامل کیا گیا نہ صوبائی، معدنیات ایکٹ کی کچھ شقیں وفاق اور کچھ صوبوں کے اختیار میں چلی گئیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا بیک وقت ایک قانون وفاق اور صوبے دونوں کے اختیار میں ہوگا؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہکیا حکومت معدنیات رولز میں ترامیم نہیں کر سکتی تھی؟ معدنیات ایکٹ 1948 میں ترامیم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون جادو کی طرح لاگو نہیں ہو جاتے، اسی قانون کا غلبہ ہوگا جو وفاق اور صوبائی سطح پر مماثلت رکھتا ہو، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر معدنیات ایکٹ میں ترمیم سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے تو عدالت مداخلت کرے گی۔
حکومت بلوچستان کے وکیل صلاح الدین احمد نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پر فاضل بینچ نے سوال اٹھایا، ریکوڈک معاہدہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے جس پر صدر ریفرنس بھیجنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات مبہم ہیں، ضروری نہیں کہ سوالات بالکل ٹھیک نکتے پر بنائے گئے ہوں، بھارتی سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ دلائل میں اٹھائے گئے نکتوں پر سپریم کورٹ رائے دے سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ریکوڈک ریفرنس میں سپریم کورٹ کو صرف انہی قانونی گزارشات پر رائے دینا ہوگی؟ ایڈووکیٹ صلاح الدین احمد نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ عدالت ایسی رائے سے گریز کرے جو تمام سرمایہ کاروں کی سہولت کاری کی وجہ ہو۔
عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
ریفرنس کا پس منظر
یاد رہے کہ کینیڈا کی مائننگ فرم بیرک گولڈ کارپوریشن کو توقع ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ، بلوچستان میں ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ منصوبے میں عالمی ثالثی کے تحت 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے راستہ بناتے ہوئے عدالت سے باہر کیے گئے اس کے 6 ارب ڈالر کے تصفیے کی منظوری دے گی۔
21 مارچ 2022 کو پاکستان نے غیر ملکی فرم کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدہ کیا تھا، معاہدے کے تحت فرم نے 11 ارب ڈالر کے جرمانہ معاف کرنے اور 2011 سے رکے ہوئے کان کنی کے منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
19 جولائی 2022 کو وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور بیرک گولڈ کارپوریشن نے 14 اگست سے ریکوڈک گولڈ پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم 18 اکتوبر کو وزیر اعظم شہباز شریف کی سفارش پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔
اس سے قبل 5 اکتوبر کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ریکوڈک منصوبے پر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی تھی۔
نیب ترامیم کیس: کرپشن بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں آتی ہے، خواجہ حارث
دوسری جانب قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کرپشن بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں آتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے انیسویں سماعت پر بھی اپنے دلائل جاری رکھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ حارث صاحب آج آپ ہی بولیں، ہم کوئی سوال نہیں کریں گے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم اپنے سوالات جمعرات تک سنبھال کے رکھیں گے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ بے نامی داروں سمیت مختلف نیب کیسز میں قانون سازوں کو حکم دے چکی ہے، کرپشن بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں آتی ہے۔
اس مختصر سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
گزشتہ سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ نیب ترامیم سے ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا کہ کرپشن ثابت نہیں ہو سکتی، قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے، دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو، مجھے پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی، قانون کا معیار مقرر کرنا عدالت کا کام ہے، ہو سکتا ہے یہی ثابت ہو کہ نیب ترامیم بدنیتی اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔
نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔
قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔
مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔