ارشد شریف پر تشدد کی فی الحال تصدیق یا تردید نہیں کرسکتے، ڈائریکٹر پمز ہسپتال
پمز ہسپتال اسلام آباد کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا ہے کہ مقتول صحافی ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ تیار نہیں ہوئی، اس لیے تشدد کے حوالے سے فی الحال تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر خالد مسعود نے معروف صحافی ارشد شریف کی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ڈان نیوز کو بتایا کہ ارشد شریف کا کیس انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے، فی الحال ان پر تشدد کی تصدیق یا تردید نہیں کرسکتے۔
مزید پڑھیں: ارشد شریف کیس کے دو اہم ثبوت جائے وقوع سے غائب ہونے کا انکشاف
انہوں نے کہا کہ فرانزک نمونے اسی لیے حاصل کیےکہ تشدد کا پتا چل سکے تاہم ہمیں رپورٹس کا انتظار کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے ناخن نکالے گئے تھے لیکن ابھی کینیا میں ہونے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ ہمیں موصول نہیں ہوئی، اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ناخن فرانزک کے لیے نکالے گئے یا تشدد کے باعث نکالے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ فرانزک رپورٹ سامنے آئی تو ہی تشدد کی تصدیق ہو سکے گی، میڈیکو لیگل ٹیم ہی ناخن نکالنے پر ماہرانہ رائے دے سکتی ہے اور کینیا کی پوسٹ مارٹم سے صورت حال واضح ہوگی۔
ڈاکٹر خالد مسعود نے بتایا کہ ناخن، مسنگ پارٹ آف باڈی تھے جس کے نمونے فرانزک کے لیے بھجوائے اور زخموں کی تصاویر بھی لی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دو ہفتوں میں پاکستان کی فرانزک لیب اپنی رپورٹ دیتی ہے، جس کے بعد متعلقہ پولیس اسٹیشن کو رپورٹ جائے گی اور پمز اپنی حتمی رپورٹ مرتب کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات میں پیش رفت، 2 گواہان کے بیانات قلمبند
میڈیا پر آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے ڈائریکٹر پمز ہسپتال نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ 6 صفحات پر مشتمل تھی لیکن صرف دو صفحات ہی لیک ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے 6 صفحات پولیس کے حوالے کیے گئے تھے۔
ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ پمز ہسپتال نے پوسٹ مارٹم رپورٹ ارشد شریف کی والدہ کو دینے سے انکار نہیں کیا اور نہ ہی وہ درخواست لے کر ہمارے پاس آئیں۔
اس سے قبل میڈیا پر مقتول صحافی ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے کچھ حصے اور تصاویر میڈیا پر سامنے آئی تھیں، جس میں تشدد کے نشانات واضح نظر آرہے تھے۔
گزشتہ روز ڈان اخبار نے کینین اخبار ’دی اسٹار‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ارشد شریف کے زیر استعمال موبائل فون اور آئی پیڈ سمیت دو اہم ثبوت جائے وقوع سے غائب ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صحافی ارشد شریف کے قتل کے تقریباً 20 دن بعد بھی ہم پیش رفت نہ ہوسکی، کینین پولیس ارشد شریف کے زیر استعمال موبائل فون اور دیگر اشیا تلاش کرنے میں مصروف ہے۔
کینیا میں موجود پاکستانی تفتیش کاروں نے ارشد شریف کے زیر استعمال موبائل فون اور آئی پیڈ کے غائب ہونے پر کینین پولیس سے سوال کیا جبکہ پولیس کا خیال ہے کہ صحافی کے زیر استعمال اشیا واقعے کے دوران چوری کرلی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: معروف صحافی و اینکر پرسن ارشد شریف کینیا میں ’قتل‘
اب تک کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ارشد شریف 20 اگست کو کینیا پہنچے تھے جہاں ان کی میزبانی دو بھائی خرم احمد اور وقار احمد کر رہے تھے جبکہ ارشد شریف کو جب گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تو وہ خرم احمد کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔
کینیا نیوز چینل ’دی نیشن‘ کے مطابق پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے شوٹنگ رینج پر موجود ہدایت دینے والوں کے نام اور نمبر مانگے ہیں، پاکستان کے تفتیش کاروں کی درخواست کے بعد کینیا کی حکومت نے دونوں بھائیوں سے واقعے کے دوران موجود افراد کی تفصیلات فراہم کرنے کا کہا تھا۔
قبل ازیں کینیا کی پولیس نے ابتدائی طور پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ ارشد شریف کو 23 اکتوبر کو نیروبی میں اس وقت قتل کیا گیا جب کار چوروں کے تعاقب میں تعینات پولیس نے گاڑی روکنے کی وارننگ کو نظر انداز کرنے اور ناکہ بندی کی خلاف ورزی کرنے پر ارشد شریف کی گاڑی پر فائرنگ کردی تھی۔
پولیس کی جانب سے بیان میں کہا گیا تھا کہ گاڑی پر فائرنگ 'غلط شناخت' کا نتیجہ سمجھی جارہی ہے۔