ورلڈ کپ 2009ء کی کہانی میری زبانی
جون کے مہینے کی 2 تاریخ تھی اور سال تھا 2009ء، جب میں نے اپنے ادارے کے لیے ٹی20 ورلڈ کپ میں اپنی صحافتی ذمے داری نبھانے کے لیے انگلینڈ کا ٹکٹ کٹوایا اور روانہ ہوا۔
اس میگا ایونٹ کے حوالے سے میں بہت زیادہ پُرجوش تھا اور ساتھ میں ولایت جانے کی خوشی بھی بے انتہا تھی۔ اپنی ذمے داری کا احساس لیے آسمان کی وسعتوں پر پرواز کرتا دوپہر 3 بجے ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچا۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی چلچلاتی دھوپ نے استقبال کیا مگر ساتھ ہوا میں ہلکی سی خنکی بھی محسوس ہوئی لہٰذا آستینوں کے بٹن لگاتے ہوئے اپنی رہائش گاہ کی جانب روانہ ہوا۔
خوشی اور غم کا سال
یہ سال پاکستان کے لیے خوشی اور غم دونوں ساتھ لے کر آیا۔ غم اس اعتبار سے کہ سیکیورٹی خدشات کی بنا پر ملک میں کرکٹ نہیں ہورہی تھی، ایسے میں سری لنکا وہ واحد ٹیم تھی جس نے ان مشکل حالات میں پاکستان کا دورہ کیا اور کراچی ٹیسٹ کے بعد جب سری لنکن ٹیم لاہور میں ٹیسٹ کھیلنے پہنچی تو کھیل کے تیسرے روز ان کی ٹیم پر دہشتگروں نے حملہ کردیا یوں پاکستان میں کرکٹ کی مکمل بحالی کی امید تو ایک طرف، پاکستان پر مکمل طور پر پابندی لگ گئی۔
اس وقت پوری قوم اس حادثے کی وجہ سے صدمے میں تھی اور اس سے نکلنے کے لیے قوم کو ایک حقیقی خوشی کی ضرورت تھی، ایک ایسی خوشی جس سے پوری قوم کے دُکھ کا کسی حد تک مداوا ہوسکے۔
پُرعزم جذبے لیے قومی ٹیم کی ایونٹ میں شرکت
قومی ٹیم 2009ء کے ورلڈ کپ میں پہنچی تو مجھ سمیت پوری قوم کے جذبات عروج پر تھے۔ ابھی 2007ء کے ٹی20 ورلڈ کپ کے فائنل کی یادیں بھی تازہ تھیں جب شعیب ملک کی کپتانی میں پاکستان کو بھارت کے خلاف آخری اوور میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وہ سب کچھ جو میں نے دیکھا
میں جب قومی ٹیم کے پریکٹس سیشن کی کوریج کے لیے اوول کے تاریخی میدان میں پہنچا تو میں نے کپتان یونس خان کو ایک الگ ہی روپ میں دیکھا۔ جو کرکٹر پہلے ہنستے کھیلتے پریکٹس کرتا تھا، میگا ایونٹ میں وہ بالکل مختلف دکھائی دیا۔ یونس خان بہت سنجیدہ نظر آئے، ممکن ہے یہ قومی ٹیم کی ذمے داری کے بوجھ کی وجہ سے ہو۔
بہرحال قصہ مختصر یہ کہ پہلا پریکٹس سیشن ڈھائی سے 3 گھنٹے تک چلا اور اس دوران اوول میں پاکستان ٹیم کی پریکٹس دیکھنے کے لیے وہاں موجود پاکستانی شائقین بڑی تعداد میں موجود تھے۔
یوں تو ٹیم کا ہر کھلاڑی ہیرو ہوتا ہے مگر اس وقت سب سے مقبول و مشہور کھلاڑی شاہد آفریدی ہوا کرتے تھے جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے عوام کا سیلاب امڈ آتا تھا۔
پاکستان کا ورلڈ کپ میں پہلا میچ انگلینڈ کے ساتھ تھا اور اس میچ میں محمد عامر نے ٹی20 کرکٹ میں ڈیبیو کیا تھا اور کپتان یونس خان نے سب سے زیادہ 46 رنز اسکور کیے تھے۔ ابتدائی میچوں میں قومی ٹیم کا نہ تو ردھم بن رہا تھا اور نہ ہی کمبینیشن۔ پاکستان کو انگلینڈ سے تو شکست ہوگئی لیکن یونس خان کھلاڑی سے زیادہ ایک اچھے کپتان کی صورت میں سامنے آئے۔ وہ اپنی ٹیم کو حریف ٹیم سے لڑوانے کا فن خوب جانتے تھے۔
میچ کے دوران بارش قومی ٹیم کے لیے رحمت
انگلینڈ میں 3 ڈبلیو کی بڑی اہمیت ہے اور یہ 3 ڈبلیو ورک، وویمن اور ویدر ہیں۔ یہ جملہ یہاں اس لیے کہنا پڑا کہ نیدرلینڈز کے خلاف میچ کے دوران وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ اس میچ میں قومی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ اوورز میں 175 رنز بنالیے تھے اور ڈر یہ تھا کہ اگر میچ مکمل نہیں ہوا تو اس کا اثر پوائنٹس کی صورت سامنے آئے گا۔ لیکن جب نیدرلینڈ کی اننگ شروع ہوئی تو شاہد آفریدی اور سعید اجمل کی جادوئی اور کمال باؤلنگ نے نیدرلینڈز کو 93 پر آؤٹ کردیا اور پاکستان نے یہ میچ 82 رنز کے بھاری مارجن سے جیت کر اپنا رن ریٹ بہترکرلیا جو آگے جاکر کام آیا۔
اسی میچ کے دوران ’رارا روری ریری را، ہوہا ہوہا‘ کے نعرے لگنا شروع ہوئے۔ دراصل یہ 8، 10 پاکستانی مداحوں کا نعرہ تھا جو پورے اسٹیڈیم میں گونج رہا تھا۔ وہ اسٹیڈیم میں پرچم اٹھائے اِدھر سے اُدھر بھاگتے دکھائی دیتے تھے اور وہاں موجود دیگر شائقین کو بھی جگا کر رکھتے۔ یہ وہ نظارے تھے کہ جو بھلائے نہیں بھولتے۔
پس پردہ حقائق
تیسرے میچ میں سری لنکا سے شکست کے بعد پس پردہ ہونے والی کئی باتیں سامنے آنے لگیں۔ ٹیم میں ایک، 2 کھلاڑیوں کو لے کر کچھ اختلاف بھی تھا اور باؤلرز کی انجری بھی سامنے آنا شروع ہوگئی تھیں۔ کچھ کھلاڑی جو 2007ء کے ورلڈ کپ میں بہترین پرفارمنس دکھا چکے تھے وہ اس ورلڈ کپ میں ویسی کارکردگی نہیں دکھا پارہے تھے۔
کئی مواقعوں پر میں نے خود کپتان کو کافی غصے میں دیکھا اور انہیں یہ بھی کہتے ہوئے سنا کہ میچ میں کھلاڑیوں کی ٹانگیں کیوں کانپ رہی ہیں؟ یہ الفاظ ایک مایہ ناز بیٹسمین کے حوالے سے تھے۔ سخت گیر کپتان نے کوچ کو بھی یہ کہہ کر ایک جانب کردیا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں۔ ٹیم میں ماحول کافی گرم تھا اور ایسی بہت سی باتیں تھیں جو مخالفین کو شے دے رہی تھیں، بعد میں ہم نے اس کا اثر بھی دیکھا۔
حسین واقعات بھلائے نہیں بھولتے
میرے ذہن میں پاکستان کے کامیاب سفر کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ باؤلر سہیل تنویر اور یاسر عرفات کے انجرڈ ہونے کے بعد عبدالرزاق کو پاکستان سے بلوا کر ٹیم میں شامل کیا گیا۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب ٹیم میں جان پڑگئی تھی۔
پھر نیوزی لینڈ سے ہونے والے چوتھے میچ میں عمر گل کی تباہ کن باؤلنگ نے نیوزی لینڈ کے پرخچے اڑادیے۔ اس میچ میں عمر گل نے 3 اوور میں 6 رنز دے کر 5 کھلاڑی آوٹ کیے۔ یہاں کیوی کپتان ڈینیئل ویٹوری نے عمر گل پر بال ٹیمپرنگ کا الزام لگایا، مگر خوش قسمتی سے یہ الزام صرف الزام ہی تھا۔
بوم بوم نئے انداز میں
اس وقت تک بوم بوم آفریدی بھرپور فارم میں آچکے تھے۔ پہلے آئرلینڈ اور پھر سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہم نے ان کی شاندار کارکردگی دیکھی۔ اگرچہ ٹیم ابھی بھی کچھ مسائل میں گھری ہوئی تھی لیکن آئرلینڈ کے میچ سے قبل ٹیم میٹنگ نے کچھ ایسا اثر چھوڑا کہ ان مسائل کا خاتمہ ہوگیا۔
2007ء کے ٹی20 ورلڈ کپ کا فائنل
فائنل معرکے سے قبل دورانِ پریکٹس لیجنڈ وسیم اکرم محمد عامر کو باؤلنگ ٹِپس دیتے دکھائی دیے۔ لارڈز کے تاریخی میدان میں بھی ایک مختلف ماحول تھا۔ کپتان اور تمام کھلاڑیوں کی جو کیفیت میں نے ٹورنامنٹ سے پہلے دیکھی تھی اب ویسا کچھ بھی نہیں تھا اور سب مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔
میں نے شاہد آفریدی کو بھرپور پریکٹس کرتے ہوئے دیکھا، ان کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک نظر آرہی تھی۔ محمد عامر کی باؤلنگ میں کمال کی جان نظر آئی اور فائنل میچ کے پہلے ہی اوور میں سری لنکا کے اوپنر تلکارتنے دلشان کو انہوں نے جس انداز میں آؤٹ کیا وہ وسیم اکرم کی دی گئی ٹپس کا اثر معلوم ہورہا تھا۔
میں نے عبدالرزاق کے ہاتھ میں وہ جادو دیکھا جس سے وہ گیند کو اِدھر سے اُدھر گھما رہے تھے اور وکٹیں حاصل کررہے تھے، اسی میچ میں مجھے کوچ انتخاب عالم بھی دعائیں کرتے نظر آئے۔
جنونی فتح
اس میچ میں ٹی20 فارمیٹ کی موزوں ترین ٹیم پاکستان نے سری لنکا کو شکست دے کر پہلی بار ٹی20 ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔ شاہد آفریدی کی ذمہ دارانہ نصف سنچری نے وہاں موجود تمام ہی شائقین کو انہیں بوم بوم کہنے پر مجبور کردیا تھا۔
پاکستان نے ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھاکر ملک کا وقار بلند کیا۔ اختتامی تقریب کے ختم ہوتے ہی اس وقت کے آئی سی سی میڈیا منیجر سمیع الحسن برنی نے لارڈز میں رکھنے کے لیے شاہد آفریدی سے شرٹ مانگی مگر انہوں نے کہا کہ پہلے یہ شرٹ پاکستان جائے گی اور پھر لارڈز کی زینت بنے گی۔
جعفر حسین نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں اور گزشتہ دو دہائیوں سے اسپورٹس رپورٹنگ کررہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔