پاکستان

سانحہ صفورا کا مرکزی مجرم سعد عزیز ایک اور کیس میں بری

سعد عزیز پر اگر کسی اور جرم کا الزام نہیں ہے تو انہیں جیل سے رہا کیا جائے، سندھ ہائی کورٹ
|

سندھ ہائی کورٹ نے داعش سے متاثرہ تعلیم یافتہ نوجوان اور سانحہ صفورا کے مرکزی مجرم سعد عزیز کو ایک اور مقدمے میں بری کردیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پولیس اور پراسیکیوشن سعد عزیز عرف ٹک ٹک کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی ماہرِ تعلیم کو قتل کرنے کی کوشش پر سعد عزیز کو 20 سال قید

بعد ازاں عدالت نے سعد عزیز کو پولیس اہلکار وقار ہاشمی کے قتل کے مقدمے میں دی گئی سزا عدم شواہد کی بنا پر کالعدم قرار دے دی۔

عدالت کی جانب سے سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ سعد عزیز پر اگر کسی اور جرم کا الزام نہیں ہے تو انہیں جیل سے رہا کیا جائے۔

خیال رہے کہ ملزم سعد عزیز اور دیگر ساتھیوں پر 3 جون 2015 کو نیو کراچی پاور ہاؤس کے قریب پولیس اہلکار کو قتل کرنے کا الزام تھا۔

ریپڈ رسپانس فورس میں تعینات کانسٹیبل وقار ہاشمی کو نیو کراچی کے سیکٹر کے 11 میں پاور ہاؤس چورنگی پر اس وقت حملہ کر کے قتل کیا گیا جب وہ ڈیوٹی سے گھر واپس جارہے تھے، بعد ازاں ماتحت عدالت نے ملزم سعد عزیز کو عمر قید اور 50 ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

مزید پڑھیں: فوجی افسر قتل کیس: داعش سے متاثر ’ 2 عسکریت پسندوں’ کی عمر قید کی سزا کالعدم

قبل ازیں رواں سال اگست میں سندھ ہائی کورٹ نے سعد عزیز اور طاہر حسین منہاس عرف سائیں کو دسمبر 2020 میں کارساز کے قریب ستمبر 2013 میں مسلح حملے میں پاک بحریہ کے کیپٹن ندیم احمد کو قتل کرنے اور ان کی غیر ملکی اہلیہ کو زخمی کرنے کے جرم میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سنائی گئی عمر قید کی سزا کو بھی کالعدم قرار دے دیا تھا۔

واضح رہے کہ سعد عزیز انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کا طالبعلم تھا جسے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ جنوری 2016 میں فوجی حکام کے حوالے کیا گیا تھا تاکہ ملزمان کے خلاف صفورا گوٹھ بس حملہ کیس، سبین محمود قتل کیس، پولیس اہلکاروں کے قتل سے متعلق کیس، اقدام قتل اور بارودی مواد اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے سے متعلق 18 مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جاسکیں۔

ان ملزمان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ داعش کے مقامی کارندے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سعدعزیزیمن کی فرقہ وارانہ جنگ سے'متاثر'،جےآئی ٹی

سعد عزیز نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے اور دیگر ملزمان نے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں سبین محمود کو قتل کیا کیونکہ وہ لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف 'غلیظ زبان' استعمال کرتی تھیں۔

دونوں اپیل کنندگان کو ان کے 3 ساتھیوں کے ساتھ ملٹری کورٹ نے 2016 میں صفورا گوٹھ بس سانحہ، سبین محمود کے قتل اور دیگر مقدمات میں سزائے موت سنائی تھی، انسداد دہشت گردی عدالت نے انہیں کچھ دیگر مقدمات میں بھی سزا سنائی تھی۔

واضح رہے کہ مئی 2015 میں کراچی کے علاقے صفورا گوٹھ کے قریب بس پر ہونے والی فائرنگ سے 18 خواتین سمیت 47 افراد ہلاک ہوگئے تھے جن کا تعلق اسماعیلی برادری سے تھا۔

اس کے علاوہ سوشل فورم ٹی ٹو ایف کی بانی اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سبین محمود کو اپریل 2015 میں بلوچستان کے حوالے سے منعقدہ ایک سمینار میں شرکت کے بعد ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا تھا۔

فوجی عدالتوں نے مذکورہ مقدمات میں سعد عزیز، طاہر منہاج، اسد الرحمٰن، محمد اظہر اور حافظ ناصر احمد کو سزائے موت سنائی تھی، بعد ازاں مجرموں کو جیل حکام کے حوالے کردیا گیا تاکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زیر سماعت دیگر مقدمات مکمل ہو سکیں۔

مجرموں نے ٹرائل کورٹ کے سزا کے حکم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں، سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ہائی پروفائل ملزم سعد عزیز کی سزا کے خلاف اپیل منظور کی تھی۔

انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں مزید 2 روپے 19 پیسے کی کمی

ذیابیطس کے لیے بنائی گئی ادویات کا گردوں کی بیماری پر اثر کا انکشاف

آرمی چیف کی امریکی وزیر دفاع سے ملاقات، دفاعی شراکت داری کی تجدید پر غور