سیلاب متاثرین کیلئے فنڈز کی کمی، حکومت ماحولیاتی تبدیلی کیلئے مختص فنڈ استعمال کرنے پر مجبور
تباہ کن سیلاب سے پیدا ہونے والے صورتحال کی وجہ سے درپیش چیلنج سے نمٹنے کے سلسلے میں فنڈز کی شدید کمی کے باعث حکومت سیلاب زدہ لوگوں کی فوری امدادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مختص فنڈز استعمال کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان خیالات کا اظہار وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے بہت سارے وہ علاقے جو سطح سمندر سے نیچے واقع ہیں وہاں سیلاب کا پانی تاحال موجود ہے جب کہ لوگوں کی زندگیاں بچانے اور انہیں پناہ گاہیں فراہم کرنے کے لیے فنڈز اور وسائل کی اب بھی کمی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب سے 3 کروڑ افراد بے گھر ہوگئے، اقوام متحدہ سے اپیل کریں گے، شیری رحمٰن
وفاقی وزیر نے کہا کہ فوری طور پر فراہم کی جانے والی امداد کی ضروریات تمام دستیاب وسائل کے استعمال کے باوجود بہت زیاد ہیں، امدادی کاموں میں ساھت دینے والی این جی اوز کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی پاکستان کی امداد کی جذباتی اپیل کے باوجود وسائل اور آنے والی ضروریات کے درمیان خلا اور فرق بہت زیادہ ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ جو چیز سب سے زیادہ تمام امدادی کوششوں کو متاثر کر رہی ہے وہ فنڈز اور اشیائے ضروریات کی واضح کمی ہے، ہم تمام ترقیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مختص فنڈز کو امدادی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں، ان فنڈز کو خاص طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ہر متاثرہ خاندان کو فوری طور پر 25 ہزار روپے فراہم کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تباہی اور نقصانات کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے علاوہ ہمیں فوری طور پر امداد کے لیے عالمی برادری سے مزید امداد کی ضرورت ہے، ہزاروں شہری اب بھی خیموں میں رہائش پذیر ہیں جب کہ بہت سارے لوگ اب بھی سائبان کی تلاش میں ہیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ ہزاروں لوگ اب بھی پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں اور خدشات ہیں کہ لوگوں کو پوری سردیاںو اس طرح گزارنی پڑھ سکتی ہیں، انہوں نے کہا کہ ملک کو تاریخ کی بد ترین قدرتی آفت سے متاثرہ سوا تین کروڑ لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے مزید بہت زیادہ وسائل درکار ہوں گے۔
مزید پڑھیں: ملک میں مون سون بارشوں سے 77 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، شیری رحمٰن
وزیر موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ اس قدرتی آفت کے باعث پاکستان کے معاشی نظام کو شدید جھٹکا لگا ہے، ہمیں قرضوں کی ادائیگی سے فوری پر کچھ ریلیف کی ضرورت ہے، ہمارا قرض متاثرہ تقریباً آدھے ملک کی تعمیر نو کے لیے ہمارے آپشن کو محدود کر رہا ہے جب کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے مختص فنڈز کی بھی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا اگر پاکستان ایک فیصد سے بھی کم ایسے عوامل و عناصر کا اخراج کرتا ہے جو کہ گلوبل وارمنگ کا سبب بنتے ہیں جس کے نتیجے میں اس طرح کی موسمیاتی آفات دنیا میں تباہی مچاتی ہیں تو پھر اس کو ملنے والی امداد کو آفتی امداد یا بھیک کیوں قرار جاتا ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔
سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ ملک کو خوراک کے عدم تحفظ کے خطرات کا سامنا ہے جب کہ سیلاب نے زرعی اراضی کا بڑا حصہ ڈبو دیا ہے اور اشیائے خور و نوش کی قمیتوں میں بہت زیادہ اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی قلت کو بھی مشکل بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہنگر ہاٹ اسپاٹ رپورٹ 2022 (ایف اے او-ڈبلیو ایف پی ارلی وارننگ آن فوڈ انسیکیوریٹی ) ظاہر کرتی ہے کہ سیلاب کے اثرات کے باعث ملک کے تین صوبوں بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں 47 لاکھ (26 فیصد) افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: موسمِ سرما کی آمد قریب، سیلاب متاثرین کی اکثریت خیموں میں سونے پر مجبور
انہوں نے کہا کہ سیلاب کے باعث صرف تیار فصلوں کو ہی نقصان نہیں ہوا بلکہ سنگین خدشات ہیں کہ آئندہ بیع سیزن میں فصلوں کی کاشت کے لیے کتنی اراضی دستیاب ہوگی، نقصان کے ابتدائی تخمینے کے مطابق صرف سندھ میں 74 فیصد قابل کاشت اراضی کو نقصان پہنچا ہے، متاثرہ کل رقبہ 3 کروڑ 41 لاکھ 743 ایکڑ تک بنتا ہے۔
صوبہ سندھ جو پاکستان میں خوراک فراہم کرنے والا خطہ سمجھا جاتا ہےاس میں سیلاب کی وجہ سے 100 فیصد کپاس ، 88 فیصد سبزیاں اور 66 فیصد چاول کی فصلیں ضائع ہو چکی ہیں۔
ملک بھر میں سیلاب کے باعث 40 لاکھ ایکڑ سے زیادہ زرعی اراضی متاثر ہوئی جس سے 48 کروڑ روپے سے زیادہ کا مالی نقصان ہوا ہے۔