پاکستان

توڑ پھوڑ، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے کیسز: عمران خان اور پی ٹی رہنماؤں کی ضمانت میں توسیع

سماعت میں بابر اعوان نے عمران خان کی لاہور میں موجودگی کے سبب حاضری سے معافی کی درخواست جمع کرائی جسے عدالتوں نے قبول کرلیا۔
|

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے کیسز میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی عبوری ضمانت میں 13 اکتوبر اور 30 ستمبر تک توسیع کردی۔

عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں دفعہ 505 ،188 ،341، 148 اور 149 کے تحت مقدمہ نمبر 425 درج ہے۔

سیشن جج کامران بشارت مفتی نے کیس کی سماعت کی جس میں ان کے وکیل بابر اعوان اور مقدمے کے تفتیشی افسر ریکارڈ کے ہمراہ پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: دفعہ 144 کیس: عمران خان اور دیگر کی ضمانت میں 27 ستمبر تک توسیع

عمران خان عدالت سے غیر حاضر رہے، ملزم کے وکیل بابر اعوان نے ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست عدالت میں دائر کی۔

بابر اعوان نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان لاہور میں موجود ہونے کی وجہ سے عدالت میں پیش نہیں ہوسکے۔

بعد ازاں عدالت نے حاضری معافی کی درخواست منظور کرتے ہوئے عمران خان کی عبوری درخواست ضمانت میں 13 اکتوبر تک توسیع کردی۔

ضمانت میں 30 ستمبر تک توسیع

دوسری جانب اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت دیگر ملزمان کی دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے معاملے میں ضمانتوں کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

سماعت ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے کی، جس کے دوران پی ٹی آئی رہنما فیصل واڈا، سیف اللہ نیازی، صداقت علی اور فیصل جاوید عدالت میں پیش ہوئے۔

ان کے علاوہ ملزمان اسد قیصر، شیخ رشید اور شہریار آفریدی، فیاض الحسن چوہان، راجا خرم شہزاد، شہزاد وسیم اور علی نواز اعوان بھی عدالت پیش ہوئے البتہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان عدالت میں پیش نہ ہوئے۔

مزید پڑھیں: دہشت گردی اور دفعہ 144 کے مقدمات میں عمران خان کی ضمانت منظور

عدالت نے ملزمان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے سماعت میں وقفہ بھی کیا۔

جج کے اعتراض پر سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بتایا کہ وہ ہائی کورٹ چلے گئے اس لیے عدالت آنے میں تاخیر ہوئی۔

وکیل قیصر جدون نے عدالت کو بتایا کہ اسد قیصر لاہور اور فردوس شمیم نقوی بھی اسلام آباد میں نہیں تھے۔

جج ظفر اقبال نے استفسار کیا کہ مقدمے کا تفتیشی افسر کہاں ہے، ساتھ ہی انہیں عدالت میں طلب بھی کرلیا۔

جج نے فردوس شمیم سے استفسار کیا کہ کیا آپ شامل تفتیش ہوئے ہیں، جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ مقدمے کی تفتیش میں شامل ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لانگ مارچ توڑ پھوڑ: عمران خان کی 10 مقدمات میں ضمانت منظور

بعد ازاں شہریار آفریدی بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت میں دیر سے آنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں کوہاٹ سے آرہا تھا اس لیے تاخیر ہوگئی، معافی چاہتا ہوں۔

وکیل انتظار پنجوتھا نے دریافت کیا کہ کیا اس کیس میں ضمانتوں کی درخواست پر فیصلہ محفوظ ہوا ہے؟

اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک ملزمان کی حاضریاں پوری کر رہے ہیں۔

عدالت نے انتظار پنجوتھا سے دریافت کیا کہ کیا اس کیس میں آپ وکیل ہیں، جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ اس کیس میں شیخ رشید احمد و دیگر کے وکیل ہیں۔

جج نے وکیل قیصر جدون سے استفسار کیا کہ کیا آپ مزید بحث کریں گے یا کچھ کہنا چاہتے ہیں، وکلا نے کہا کہ صبح بابر اعوان صاحب بحث کر چکے ہیں، ہم مزید نہیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی کے مقدمے میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع

اس کے علاوہ مراد سعید بھی عدالت سے غیر حاضر رہے جن کی درخواست ضمانت عدالت نے عدم پیروی پر خارج کردی۔

اس عدالت میں بھی عمران خان کے وکیل نےان کی لاہور میں موجودگی کے باعث حاضری سے استثنیٰ کی درخواست جمع کرائی جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

بعد ازاں عدالت نے تمام ملزمان کی ضمانت میں 30 ستمبر تک توسیع کرتے ہوئے 10، 10 ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی اور سماعت اس روز تک ملتوی کردی۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

خیال رہے کہ 25 اگست کو دہشت گردی کے مقدمے میں ضمانت کے بعد دفعہ 144 کے مقدمے میں بھی عمران خان کی ضمانت منظور ہوگئی تھی۔

اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود شہباز گل کی حمایت میں احتجاجی جلسہ کرنے پر درج مقدمے میں ضمانت کے لیے عمران خان اپنے وکلا بابر اعوان، فیصل چوہدری، سردار مصروف خان اور قیصر جدون کے ہمراہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج طاہر عباس سپرا کی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے عمران خان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے مقدمے میں 5 ہزار کے مچلکوں کے عوض ان کی ضمانت منظور کر تے ہوئے آج پولیس کو ریکارڈ سمیت طلب کیا تھا۔

یاد رہے کہ 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں‘۔

مزید پڑھیں: دہشت گردی کا مقدمہ، عمران خان کی 3 روزہ حفاظتی ضمانت منظور

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس، مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے پر عمران خان کےخلاف مقدمہ درج، دہشت گردی کی دفعہ شامل

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔

مریم نواز کی پاسپورٹ واپسی کی درخواست، نیب کا مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ

راولپنڈی: سابق رکن قومی اسمبلی جمشید دستی گرفتار

عمران خان کے جامعہ میں خطاب کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی سخت تنقید