فضائی میزبان کی آپ بیتی: پیار اور فاصلہ ایک ہزار فٹ کا
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
جب میں فضائی میزبانی کے تربیتی کورس کے سلسلے میں کراچی جانے والا تھا تو گھر والوں نے کہا کہ بیٹا دیکھو کورس پاس کرنا، ٹائم پاس نہ کرنا۔
میں یہ بات فوراً ‘پلے’ سے باندھنے لگا تو پلے نے احتجاج کیا کہ تم انسان لوگ مجھ پر گرہ لگا کر میری ‘گچی گھٹ’ (میرا گلا دبا) دیتے ہو اور عمل نہیں کرتے۔ مہربانی کرو اور مجھ پر گرہ نہ لگاؤ۔ چنانچہ میں نے یہ بات ذہن نشین کرلی۔ پھر خدا کے فضل سے کورس میں تیسری پوزیشن حاصل کی جس کا یقین نہ میرے گھر والوں کو آیا اور نہ ہی ‘پلے’ کو۔
لیکن کراچی جانے سے پہلے میں ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوگیا۔ آپ نے وہ فقرہ تو سنا ہوگا کہ ‘فاصلہ رکھیں ورنہ پیار ہوجائے گا’۔ میں نے بھی سنا ہے۔ خدا جانے یہ فقرہ خاندانی منصوبہ بندی والوں نے نکالا ہے یا کسی اور وزارت نے کہ لکھا رکشوں اور گاڑیوں کے پیچھے جاتا ہے مگر عمل کوئی نہیں کرتا۔ نہ عوام اور نہ ہی رکشے اور گاڑیاں۔
عوام چاہتے ہیں کہ فاصلہ بھی نہ رکھیں اور پیار بھی نہ ہو۔ ایسا تو فلموں میں بھی ممکن نہیں ہوتا۔ خیر اس حادثے نے میرے ہیلمٹ پر ان مٹ نقوش چھوڑے کیونکہ ذہن (دماغ) تو خدا کی مہربانی سے بچ گیا تھا۔
بس ایک گاڑی نے فاصلہ نہ رکھا اور میرے موٹر سائیکل پر دل ہار بیٹھی۔ اس پیار بھرے تصادم کے نتیجے میں وہ میرے موٹر سائیکل کو ورغلا کر چلتی بنی اور میں سڑک کی خاک چھانتا رہ گیا۔ جان بچی سو لاکھوں پائے، لنگڑاتے ہوئے ہم پھر گھر کو آئے۔ پاؤں اور ٹانگوں پر چوٹیں آئیں۔ تربیتی کورس کے کچھ ہفتے بند جوتا پہننے میں مشکل ہوئی لیکن پھر سب ٹھیک ہوگیا۔
کچھ مہینے بعد جب جہاز کا سفر شروع ہوا تو ایک مرتبہ کاک پٹ میں بیٹھنا ہوا کیونکہ معاون ہوا باز تقاضا ہائے قدرت کی غرض سے باہر تشریف لے گئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سمجھیں وقت پڑنے پر میں پائلٹ کی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہوں اور چھوٹا موٹا جہاز بھی اڑا لیتا ہوں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نخواستہ اس وقت کاک پٹ کے اندر موجود ہوا باز کو کسی مدد کی ضرورت ہو تو ان کے کام آیا جاسکے۔
خیر ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ سامنے سے ایک جہاز آتا دکھائی دیا۔ میں نے چونک کر کپتان صاحب کی طرف دیکھا۔ وہ سکون پروگرام میں تھے۔ میں نے کچھ لمحے انتظار کیا کہ شاید اب ان کی نظر سامنے سے آتے جہاز پر پڑجائے لیکن وہ اپنے سامنے لگی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ وہ جہاز قریب ہی آتا جا رہا تھا۔ اب مجھے گھر والے یاد آنا شروع ہوچکے تھے اور میرے جسم کے کافی حصوں سے پسینہ بھی نکلنا شروع ہوگیا تھا۔
مجھے ‘فاصلہ رکھیں ورنہ پیار ہوجائے گا’ والا فقرہ اور اپنے ساتھ ہونے والا حادثہ یاد آرہا تھا۔ میرا دل اس بچے کے دل کی طرح دھڑکنے لگا جس کی امی کو پتہ چل جائے کہ ان کو جہیز میں ملنے والے شیشے کے گلاسوں کے سیٹ میں سے ایک اس سے ٹوٹ گیا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ جہاز ہمارے جہاز سے ٹکرا گیا تو دونوں کے پرخچے اڑ جائیں گے اور زمین تک نہ ‘پر’ پہنچیں گے اور نہ ہی ‘خچے’۔
چنانچہ میں نے ہمت کرکے کپتان صاحب کو کہا کہ سر سامنے سے ایک جہاز آرہا ہے ذرا دیکھیں۔ وہ نہایت سکون سے کہنے لگے ‘ہاں یہ قطر (ایئرلائنز) کی فلائیٹ آرہی ہے’ اور پھر سکون سے اپنی سامنے والی اسکرین دیکھنے لگے۔
میں نے ذرا اچک کر اسکرین کو دیکھا کہ شاید کوئی جادوئی پروگرام چل رہا ہے اس پر اور کہیں کپتان صاحب ہپناٹائز تو نہیں ہوئے بیٹھے لیکن اسکرین پر دھاگے کے بغیر ایک سوئی گھوم رہی تھی اور لفظ ناچ رہے تھے۔
میں نے کہا ‘سر یہ تو بالکل سیدھا ہماری طرف ہی آرہا ہے’، تو کہنے لگے کہ ‘فکر نہ کرو یہ ہم سے ایک ہزار فٹ اوپر ہے’۔ یہ سن کر میری کھلی ہوئی ڈھارس کچھ بندھ گئی اور کافی دیر سے میرا سب کچھ تر ہونے کے ساتھ گلا بھی کچھ تر ہوا کیونکہ اس کیفیت میں تھوک مجھ سے روٹھ گئی تھی اور گلے کی نالی سوکھ گئی تھی۔
اس دن مجھے معلوم ہوا کہ ہوا میں جو ٹریفک (جہازوں کی) چل رہی ہوتی ہے ان میں ایک ہزار فٹ کا عمودی فاصلہ ہوتا ہے۔ افقی رخ پر 2 جہازوں میں تقریباً 10 کلو میٹر کا فرق ہوتا ہے۔ راڈار کی مدد سے ہوا باز کو معلوم ہوتا ہے کہ کون سے جہاز اطراف میں پرواز کر رہے ہیں۔
مسافروں کو عام طور پر کھڑکی سے کبھی کبھی کوئی جہاز نظر آجاتا ہے۔ وہ جہاز تقریباً 10 کلومیٹر دُور اور ایک ہزار فٹ اوپر یا نیچے اڑ رہا ہوتا ہے۔ جہاز کی بلندی کا تعین ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور کرتا ہے جس میں بیٹھے ہوئے تجربہ کار لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون سا جہاز کس بلندی پر محو پرواز ہے۔ ہر پائلٹ ٹاور سے ہی اجازت لے کر جہاز کو بلندی یا پستی پر لاتا ہے۔
اگلی بار اگر جہاز کی کھڑکی سے آپ کو کوئی اور جہاز نظر آئے تو اپنے جہاز کے پائلٹ کو ریس لگانے پر آپ نے بالکل نہیں اکسانا اور اس کی مدح سرائی میں غل غپاڑہ بھی نہیں مچانا کیونکہ اس سے ہوسکتا ہے آپ کو بھاری جرمانہ۔ لہٰذا دل ہی دل میں آپ نے یہ سوچنا ہے کہ پہلے ہمارا جہاز آگے نکلتا ہے یا وہ 10 کلومیٹر دُور اڑنے والا اور یقیناً اس جہاز میں بیٹھا ہوا کوئی مسافر بھی یہی سوچ رہا ہوگا۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔