سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے مزید مؤثر حکمت عملی کی ضرورت
غیرمعمولی سیلاب کی بڑی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کے لیے اقوام متحدہ کی ہنگامی اپیل کے اعلان کے 2 ہفتے گزر جانے کے بعد مزید مؤثر حکمت عملی کی ضرورت محسوس ہورہی ہے جسے 'کلسٹر اپروچ' بھی کہا جاتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ریزیڈینٹ اینڈ ہیومن کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے حکومت کے زیر قیادت شعبوں میں خدمات فراہم کی جائیں گی اور حکومت کی کوششوں میں مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔
اسی طرح یونیسیف کے ایک عہدیدار نے کہا کہ تنظیم کے تحت بچوں کے تحفظ پر ایک تکنیکی ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا ہے جو پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ 2 اضلاع میں کام کر رہا ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے تحت تعلیم، غذائی تحفظ، زراعت، ذریعہ معاش، صحت، لاجسٹکس، غذائیت، پناہ گاہ، بچوں کے تحفظ اور قدرتی آفات کے خطرے میں کمی کے شعبوں کا احاطہ کرنے کے لیے ایک انٹر سیکٹرل کوآرڈینیشن گروپ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کیلئے اقوام متحدہ کی ہنگامی اپیل پر 3 کروڑ 80 لاکھ ڈالر جمع
لیکن جس حکمت عملی کی غیر موجودگی واضح طور پر محسوس ہورہی ہے وہ 'کلسٹر اپروچ' ہے جو پاکستان میں 2005 کے زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے پہلی بار اپنائی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امورکے مطابق بہتر ہم آہنگی کے لیے زلزلے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر 9 کلسٹرز قائم کیے گئے تھے۔
تحفظ، پانی، صفائی، حفظان صحت، صحت، تعلیم، زراعت، ہنگامی پناہ گاہ اور غذائیت کے شعبوں میں کلسٹر قائم کیے جانے تھے۔
تاہم اس بار اقوام متحدہ نے ایک مختلف حکمی عملی اپنائی جبکہ تباہی کی شدت ماضی کی قدرتی آفات سے کہیں زیادہ بدتر ہے جن سے نمٹنے کے لیے کامیابی کے ساتھ 'کلسٹر اپروچ' کا استعمال کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں سیلاب متاثرین کیلئے کینیڈا کا 20 ہزار ڈالر امداد کا اعلان
پاکستان کو اس وقت دہرے چیلنج کا سامنا ہے، نہ صرف موجودہ تباہی سے ہونے والا نقصانات ماضی کی قدرتی آفات سے کہیں زیادہ ہیں بلکہ امدادی کارروائیوں میں سرگرم تنظیموں کی تعداد بھی کم ہے۔
الائنس فار ایمپاورنگ پارٹنرشپ کے مطابق 2010 میں پاکستان میں 158 تنظیمیں سرگرم تھیں لیکن اس بار انسانی ہمدردی کی صرف 70 تنظیمیں پاکستان کی امدادی سرگرمیوں میں مدد کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کو فنڈز کی کمی کا سامنا
دریں اثنا اقوام متحدہ کو امدادی سرگرمیوں کے لیے درکار فنڈنگ میں 32 ارب ڈالر کی ریکارڈ کمی کا سامنا ہے اور اسے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے اہم پروگراموں کے لیے اپنے ہنگامی فنڈ پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) نے کہا کہ عطیہ دہندگان نے 2022 میں دنیا بھر آنے والے بحرانوں کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ امداد دی ہے لیکن پاکستان میں بدترین سیلاب اور صومالیہ میں قحط کے انتباہ کے پیش نظر طلب بھی بڑھ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: امریکا کا سیلاب زدہ علاقوں میں آبی امراض سے نمٹنے کیلئے امداد کا اعلان
ان بحرانوں کے لیے فنڈز کی تاخیر سے آمد کا حوالہ دیتے ہوئے ترجمان او سی ایچ اے جینز لایرکے نے کہا کہ کچھ نئے جاری کردہ فنڈز کو نائیجر میں خشک سالی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے متوقع امدادی کارروائی کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ ایک عمومی تشویش ہے کہ وسائل اکثر اسی وقت بروئے کار لائے جاتے ہیں جب آفات اور مصائب عروج پر پہنچ چکی ہوتی ہیں اور ان سے نمٹنا زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے'۔
بگڑتی ہوئی صورتحال کے ساتھ بدلتے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2010 کے سیلاب نے 2 کروڑ 20 لاکھ افراد کو متاثر کیا تھا جبکہ حالیہ سیلاب سے اب تک 3 کروڑ 30 لاکھ آبادی متاثر ہوچکی ہے اور یہ تعداد مزید بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔