یونانی کوسٹ گارڈز کی ترکیہ کے ‘مشکوک’ مال بردار بحری جہاز پر فائرنگ
یونانی کوسٹ گارڈ نے بین الاقوامی سمندر میں جاتے ترکیہ کے مال بردار بحری جہاز پر فائرنگ کر دی، جس سے دونوں ممالک کے درمیان حالیہ ہفتوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ترکیہ کے کوسٹ گارڈ نے بیان میں بتایا کہ ترکیہ کے جزیرے بوچادا کے جنوب مغرب سے 11 ناٹیکل میل دور فائر کیا گیا، جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ یونانی جہازوں کی جانب سے ‘ہراساں کرنے کے لیے کی گئی فائر’ کے بعد ترکیہ کے کوسٹ گارڈ 2 جہاز پہنچے تو یونان کے جہازچلے گئے۔
یونانی کوسٹ گارڈ نے تصدیق کی کہ اس نے لیزبوس جزیرے کے قریب یونان کی سمندری حدود میں ‘مشکوک انداز میں جانے والے’ جہاز پر انتباہی فائر کیے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: یونانی کھنڈرات کی سیر (پانچویں قسط)
یونانی کوسٹ گارڈ حکام نے بتایا کہ مال بردار جہاز کے کپتان نے انسپیکشن کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، اور بعد ازاں وہ ترکیہ کے قریبی سمندر میں چلا گیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ علاقہ ترکیہ سے مہاجرین کو یورپی یونین کے ممالک یونان اور اٹلی میں لانے والے بہت سے بحری جہازوں کے لیے جانا جاتا ہے، یونانی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ وہ بحریہ ایجیئن میں مشکوک سلوک کرنے والے بحری جہازوں کو باقاعدگی سے چیک کرتا ہے۔
پڑوسی ممالک کے مابین کئی دہائیوں سے تنازعات جاری ہیں، حالیہ ہفتوں میں دونوں کی جانب سے فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا، یونانی حکام نے یوکرین میں روس کی جنگ کے بعد یورپ میں ایک اور تنازع کے خدشات کا اظہار کیا۔
انقرہ نے ایتھنز پر ایجیئن کے متعدد جزائر پر ‘قبضہ’کرنے اور ترکیہ کے طیاروں کو روسی ساختہ ایس-300 کے ذریعے ہراساں کرنے کا الزام لگایا، ایتھنز نے ان دعوؤں کی تردید کی۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے فوجی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے یونان کو خبردار کیا کہ اگر وہ ایجئین کے اوپر سے فائٹر جیٹ کو ہراساں کرنا جاری رکھتے ہییں تو ‘بھاری قیمت’ ادا کرنا پڑے گی۔
مزید پڑھیں: روس، ترکیہ اور ایران کا شام میں ‘دہشت گردوں کے خاتمے’ کا عزم
یونان کا کہنا ہے کہ اسے سیاحتی مقامات روڈس اور کوس سمیت اپنے مشرقی جزیروں کا اپنے بڑے اور عسکری طور پر مضبوط پڑوسی کے خلاف دفاع کرنے کی ضرورت ہے، اور جو ترکیہ کے بہت قریب ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکش صدر کے حالیہ بیانات ناقابل قبول ہیں، تاہم ہم ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ بات چیت کے دروازے کھلے رہیں۔