کراچی: احتجاج میں شرکت پر پولیس کا تاجر، ان کے بیٹے پر وحشیانہ تشدد
کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں پولیس نے مقامی تاجر اور بیٹے کو نجی ہسپتال کو پانی کی لائن دینے کے خلاف شہریوں کے احتجاج میں شریک ہونے پر گرفتار کرکے انتہائی سفاکیت اور وحشیانہ طریقے سے تشدد کا نشانہ بنایا تاہم چند گھنٹوں بعد کوئی وجہ بتائے بغیر رہا کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کراچی پولیس نے 49 سالہ کاروباری شخصیت احمر منصور اور حال ہی میں او لیول مکمل کرنے والے ان کے 17 سالہ بیٹے موسیٰ بن احمر کو بڑی بے دردی سے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتار کیا، جنہوں نے اپنے علاقے کی 48 انچ پانی لائن سے ایک نجی ہسپتال کو کنکشن دینے کے خلاف شہریوں کے ساتھ احتجاج میں شرکت کی تھی۔
پولیس کی جانب سے کیے گئے وحشیانہ تشدد کی وجہ سے نوجوان موسیٰ بن احمر کا دایاں پاؤں ٹوٹ گیا جبکہ ان کی ایک ہڈی بھی ٹوٹ گئی ہے اور ان کے ایک بازو پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور اسی طرح ان کے والد احمر منصور کے پورے جسم پر بھی زخموں کے نشان تھے۔
زخمی باپ اور بیٹے کو ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ زخم ٹھیک ہونے میں کافی وقت لگ سکتا ہے اور اس دوران انہیں متعدد طبی علاج سے گزرنا ہوگا۔
یہ واقعہ گزشتہ ہفتے پیش آیا تھا جب احمر منصور اپنے نوجوان بیٹے موسیٰ بن احمر کے ہمراہ نارتھ ناظم آباد بلاک بی میں تھے جہاں نجی ہسپتال ضیاالدین کو پانی کا کنکشن دینے کے خلاف علاقہ مکینوں کا احتجاج جاری تھا۔
اس دوران پولیس کی بھاری نفری اور انتظامی عملہ وہاں پہنچا اور مظاہرین کو منتشر کردیا تاہم مظاہرین کا کہنا تھا کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے مین لائن سے نجی ہسپتال کو واٹر سپلائی کا کنکشن دے کر انہیں ان کے حصے کے پانی سے محروم کر دیا ہے۔
احتجاج کے بعد احمدر منصور اور ان کے بیٹے نے مزید کچھ دیر وہاں رکے ہوئے تھے وہ موبائل سے مظاہرین کی تصاویر لینے میں مصروف تھے، ایسے میں پولیس کی نفری ایس ایچ او فیصل رفیق اور علاقہ کے ڈی ایس پی اسلم راجپوت کی سربراہی میں نوجوان موسیٰ احمر کو گرفتار کیا۔
بعدازاں پولیس نے باپ اور بیٹے کو مبینہ طور پر مکے اور لاتیں ماریں اور مین روڈ پر بے دردی سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر موبائل وین میں ڈال کر حیدری تھانے لے گئی۔
احمر منصور کا کہنا تھا کہ تھانے لے جانے کے بعد انہیں بند کردیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں مسلسل پولیس سے پوچھتا رہا کہ میرا کیا قصور ہے، تشدد کے باعث ہونے والے شدید درد کی وجہ سے میرا بیٹا خوف زدہ ہوگیا، جو بار بار بے ہوش ہو رہا تھا مگر کسی نے ہماری بات نہیں سنی'۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران میں نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا جس کی دائیں ٹانگ بہت زیادہ سوجھی ہوئی تھی اور اسی طرح میرے اوپر اتنا تشدد کیا گیا تھا کہ میں کھڑا بھی نہیں ہو پارہا تھا۔
احمر منصور نے کہا کہ میں نے پولیس سے اپنے بیٹے کے لیے طبی امداد دینے کی درخواست کی جو اٹھنے اور بات کرنے کے قابل نہیں تھا مگر پولیس نے کوئی رحم دلی نہیں دکھائی اور کافی وقت دیر تک تشدد اور ذہنی دباؤ ڈالنے کے بعد ہمیں آزاد کیا۔
موسیٰ احمر کا کہنا تھا کہ یونیفارم میں ملبوس ڈی ایس پی اسلم نے انہیں مارا پیٹا، جس سے وہ بدحال ہوگئے اور بازو کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں۔
احمر منصور نے کہا کہ ہم پچھلے پانچ دنوں سے روزانہ ہسپتال جا رہے ہیں، یہ میرا حق تھا کہ میں اپنے پڑوس کے لوگوں کی حمایت کروں، جو ناانصافی کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے، میرا کیا جرم تھا کہ میرے پورے خاندان کو صدمے میں ڈال دیا گیا؟
متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ احتجاج کی قیادت کرنے والی جماعت اسلامی نے قانون کی پاسداری کرنے والے شہریوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے لیے اعلیٰ حکام سے تحریری درخواست کی۔
علاقہ مکین اس بات پر حیران ہیں کہ احتجاج کرنے والوں پر اس قدر ظالمانہ اور وحشیانہ تشدد کرنے کے لیے پولیس کو کس چیز نے مجبور کیا جو کہ صرف ایک نجی ہپستال اور واٹر بورڈ کے خلاف تھا۔
پولیس چیف کا تشدد پر ’حیرانی‘ کا اظہار
کراچی پولیس چیف جاوید اوڈھو نے بھی پولیس کے اس طرح کے تشددپر ’حیرانی‘ کا اظہار کیا تاہم انہوں نے کہا کہ واقعے کی باقاعدہ انکوائری شروع کی جائے گی۔
ڈان کو جاوید اوڈھو نے بتایا کہ یہ چونکا دینے والا اور ناقابل برداشت عمل ہے، ہم یقینی طور پر متاثرین سے رابطہ کریں گے اور ان سے تعاون کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو اچھی طرح سے دیکھا جائے گا، اگر پولیس اہلکار اس میں ملوث پائے گئے یا کسی صورت قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے تو انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔