دنیا

لز ٹرس برطانیہ کی نئی وزیر اعظم منتخب

لز ٹرس نے 81 ہزار 326 (57.4 فیصد) ووٹ حاصل کیے جبکہ رشی سوناک نے 60 ہزار 399 (42.6 فیصد) ووٹ حاصل کیے۔

برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی نے بورس جانسن کی جگہ ملک کے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے سیکریٹری خارجہ لز ٹرس کے حق میں ووٹ دے دیا جو منگل کو عہدہ سنبھالیں گی۔

لندن میں کنزرویٹو پارٹی کے رہنماؤں لز ٹرس اور رشی سوناک کے درمیان پارٹی کی قیادت کے لیےمقابلہ ہوا تاہم لز ٹرس نے الیکشن جیت لیا اور وزارت عظمیٰ کی دوڑ جیت گئیں۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کا معاشی بحران سنگین، بورس جانسن چھٹیاں منانے چلے گئے

غیر ملکی خبر ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کے اراکین کی ووٹنگ میں لز ٹرس نے 81 ہزار 326 (57.4 فیصد) ووٹ حاصل کیے جبکہ رشی سوناک نے 60 ہزار 399 (42.6 فیصد) ووٹ حاصل کیے۔

کنزرویٹو پارٹی کے اکثریتی اراکین کی حمایت حاصل کرنے والی رہنما وزیر اعظم بن جائیں گے اور انتقال اقتدار منگل کو ہوگا۔

برطانیہ کی نئے وزیر اعظم کو مہنگائی، صنعتی عدم استحکام اور کساد بازاری جیسے بحرانوں کا سامنا کرنا ہے۔

نتائج کے اعلان کے بعد لز ٹرس نے کہا کہ ہمیں یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم اگلے دو برس میں پیش رفت کریں گے، میں ٹیکسز کم کرنے کے لیے بڑا منصوبہ بناؤں گی اور اپنی معیشت بہتر کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں توانائی کے بحران، عوام کے بجلی کے بلوں کے حوالے سے کام کروں گی اور اس کے ساتھ ساتھ توانائی کی فراہمی سے متعلق مسائل پر کام کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ

خیال رہے کہ بورس جانسن کے بعد وزارت عظمیٰ سنبھالنے والی لز ٹرس 2015 کے عام انتخابات کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی چوتھی وزیر اعظم ہوں گی، اس دوران ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا اور اب طویل کساد بازاری اور بدترین مہنگائی کا خدشہ ہے۔

بورس جانسن کی کابینہ میں بطور وزیر کام کرنے والی 47 سالہ لز ٹرس نے مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ مہنگائی اور توانائی کے بحران پر قابو پالیں گی، ٹیکس میں اضافے اور دیگر لیویز کا خاتمہ کریں گی۔

رپورٹ کے مطابق جولائی میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے والے بورس جانسن منگل کو ملکہ ایلزبیتھ سے ملاقات کریں گے اور باقاعدہ طور پر اپنا استعفیٰ پیش کریں گے جس کے بعد وہ لز ٹرس کو حکومت تشکیل دینے کا کہیں گی۔

یاد رہے کہ برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے مختلف اسکینڈلز کے باعث ملک میں سیاسی بحران شدت اختیار کرنے کے بعد جولائی میں کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا اور کہا تھا کہ اگلے وزیر اعظم کے انتخاب تک وہ کام کرتے رہیں گے۔

بورس جانسن نے لندن میں پریس کانفرنس کے دوران اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘نئے سربراہ کے انتخاب کا عمل اب شروع ہونا چاہیے’۔

عمران خان کے فوجی قیادت سے متعلق ہتک آمیز بیان پر فوج میں شدید غم و غصہ ہے، آئی ایس پی آر

ڈی جی خان میں ہوٹل مافیا لینڈ سلائیڈنگ میں ملوث

آرمی چیف کا تقرر 'متنازع بنانے' پر اتحادی حکومت کی عمران خان پر تنقید