پاکستان

حکومت کا شوکت ترین اور تیمور جھگڑا کی آڈیو ٹیپ کے فارنزک آڈٹ کا فیصلہ

وزارت قانون اور داخلہ نے معاملے پر مشاورت کی ہے، کارروائی کرنے کا فیصلہ فارنزک رپورٹ مرتب ہونے کے بعد کیا جائے گا، اعظم نذیر تارڑ

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ حکومت نے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور خان جھگڑا کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو ٹیپ فارنزک آڈٹ کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے انکشاف کیا کہ وزارت قانون اور داخلہ نے اس معاملے پر مشاورت کی ہے اور کوئی کارروائی کرنے کا فیصلہ فارنزک رپورٹ مرتب ہونے کے بعد کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: شوکت ترین کی مبینہ آڈیو کال لیک ہوگئی

انہوں نے کہا کہ ہر پارلیمنٹیرین قومی مفاد کو برقرار رکھنے کا حلف اٹھاتا ہے، وفاقی اور صوبائی وزرا قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا اضافی حلف اٹھاتے ہیں۔

تاہم شوکت ترین اور تیمور خان جھگڑا کے درمیان ہونے والی گفتگو نے اشارہ کیا کہ تیمور نے بطور وزیر خزانہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کی جبکہ شوکت ترین نے سیاست کو ریاست پر ترجیح دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں یہ ناصرف قومی مفاد کی خلاف ورزی ہے بلکہ غداری بھی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے امید ظاہر کی کہ مقدمے کا فیصلہ اسی نوعیت کے ماضی کے مقدمات کی مثالوں کے مطابق کیا جائے گا جس میں دیگر جماعتوں کے اراکین اسمبلی حتیٰ کہ کے وزرائے اعظم بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آڈیو لیک: طے ہوگیا کہ خط آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کرنے کیلئے لکھا گیا، مفتاح اسمٰعیل

2015 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ایک بینچ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی تھی جب انہوں نے 2013 کے انتخابات کے دوران عدلیہ کے کردار کو شرمناک کہا تھا۔

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ کیس میں عمران خان کو وارننگ کے ساتھ جانے دیا گیا تھا اور انہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ دوبارہ عدلیہ کے لیے اس طرح کے ریمارکس دوبارہ کبھی استعمال نہیں کریں گے۔

انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے جمع کرائے گئے جواب پر بھی طنز کیا اور کہا کہ اگر ایک سابق وزیر اعظم سیشن جج اور ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے درمیان فرق نہیں کر سکتا تو انہیں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آیا وہ ملک پر حکمرانی کرنے کے اہل ہیں یا نہیں۔

منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو اپنے جواب میں عمران خان نے وضاحت کی تھی کہ وہ ایک غلط فہمی میں تھے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج زیبا چوہدری شاید ایک ایگزیکٹو مجسٹریٹ ہیں جو وفاقی حکومت کے احکامات پر ایگزیکٹو یا انتظامی فرائض انجام دیتا ہے۔

وزیر قانون نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ حکومت کو برطانوی حکام کی جانب سے واپس کیے گئے 50 ارب روپے کی واپسی کی تحقیقات کے لیے جون میں بنائی گئی کابینہ کمیٹی اس معاملے کی پیروی کر رہی ہے اور مزید کارروائی کے لیے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کے جواب کا انتظار ہے۔

مزید پڑھیں: شوکت ترین کی ’آڈیو لیک‘ میں کوئی غلط بات نہیں ہے، اسد عمر

پیر کو منظر عام پر آنے والے کلپس میں شوکت ترین کو تیمور جھگڑا اور پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے کہیں کہ تباہ کن سیلاب کی روشنی میں دونوں صوبے بجٹ سرپلس پوسٹ نہیں کر سکتے۔

ایک ریکارڈنگ میں تیمور لغاری نے مسٹر ترین سے پوچھا تھا کہ کیا اس طرح سے ریاست کے مفادات کو نقصان پہنچے گا تو شوکت ترین نے جواب دیا تھا مسلم لیگ(ن) ریاست کے نام پر ہمیں بلیک میل کری رہتی ہے اور ہم ان کی مدد کرتے رہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔

کیا حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر پوری طرح عمل کرسکے گی؟

چین: پولیس نے ذبح کرنے کیلئے رکھی گئیں 150 بلیاں تحویل میں لے لیں

عمران خان کی سیکیورٹی پر سالانہ 24کروڑ روپے خرچ ہونے کا انکشاف