نقطہ نظر

مشکلات میں گھرے عوام اور اقتدار کے کھیل میں مگن سیاستدان

زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ کہیں زیادہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ان شدید بارشوں سے زراعت کے شعبے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

اس سے زیادہ عجیب بات اور کیا ہوگی کہ جس دوران ملک کا بڑا حصہ طوفانی بارشوں سے ہونے والی تباہی کا شکار ہے اسی دوران سیاسی رہنما اقتدار کے کھیل میں مگن ہیں۔

اچانک آنے والے سیلاب سے پورے کے پورے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور بچوں سمیت سیکڑوں افراد سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ ہر طرف خوفناک مناظر ہیں۔ اس تباہی کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور خوراک سے بھی محروم ہیں۔

ہم نے بلوچ فوک گلوکار وہاب بگٹی کی وہ تصویر بھی دیکھی میں جس میں وہ اپنے کچے مکان کے ملبے پر کھڑا تھا اور اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ پانی میں ڈوبی ہوئی اطراف کی زمینیں ان مشکلات کو بیان کررہی تھیں جو بلوچستان کے لوگوں کو درپیش ہیں۔ بلوچستان حالیہ بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے۔ ان بارشوں میں ہلاک ہونے والے بچے اور تباہ ہوجانے والے مکانات بس اعداد و شمار ہی بن کر رہ گئے ہیں۔ تاہم جان اور مال کے حقیقی نقصان کو ناپنا کسی طور ممکن نہیں۔

یہ تباہی صرف بلوچستان تک محدود نہیں ہے بلکہ سندھ، جنوبی پنجاب اور شمالی علاقہ جات کا بھی کچھ یہی حال ہے۔ پاکستان کا معاشی مرکز اور سب سے بڑا شہر کراچی بھی کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے جہاں سڑکوں پر گڑھے بن گئے ہیں اور سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ تباہ حال انفرااسٹرکچر نے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

مزید پڑھیے: کراچی: چھوٹے گاؤں سے بڑے گاؤں تک

بدقسمتی سے بارشوں کا سلسلہ تھما نہیں ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں بارشوں کا نیا سلسلہ آنے والا ہے۔ پاکستان رواں سال معمول سے تقریباً 3 گنا زیادہ بارشوں کا سامنا کررہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان بارشوں کے نتیجے میں جولائی سے اب تک ملک بھر میں تقریباً 800 افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، تاہم بارشوں سے ہونے والے اصل نقصان کا اندازہ اس سے کہیں زیادہ کا لگایا گیا ہے۔ ہزاروں ایکڑ اراضی پر لگی فصلیں تباہ ہونے سے لوگوں کا ذریعہ معاش بھی ختم ہوگیا ہے۔

متاثرہ لوگوں کی اکثریت اب بھی ریاست کی جانب سے امداد کی منتظر ہے۔ ایک جانب ہماری سیاسی جماعتیں اسلام آباد میں اقتدار کا کھیل کھیل رہی ہیں تو دوسری جانب وہاب بلوچ اور اس جیسے لاکھوں متاثرین سخت موسم کے رحم و کرم پر ہیں۔ عوام کے دکھوں کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں کی یہ مجرمانہ بےحسی ہے۔

یقینی طور پر ملک پہلی مرتبہ کسی قدرتی آفت کا سامنا نہیں کررہا لیکن موجودہ بحران انتہائی سنگین ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط اور جامع قومی ردِعمل کی ضرورت ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔ ان کی زیادہ تر توجہ سیاسی بدلے لینے پر ہے۔ موجودہ سیاسی غیر یقینی اور عدم استحکام نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے۔

ہمیں غیر معمولی تیز بارشوں کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی لیکن انتظامیہ پھر بھی اس حوالے سے تیاریوں میں بُری طرح ناکام رہی۔ ظاہر ہے کہ حکام نے پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں سمجھا۔ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔

مزید پڑھیے: موسمیاتی تبدیلی کس طرح پاکستان میں خوراک کا بحران پیدا کرسکتی ہے؟

گزشتہ چند برسوں میں ہم نے ملک میں شدید گرم موسم سے لے کر کچھ علاقوں میں تیز بارشوں اور دیگر علاقوں میں خشک سالی تک دیکھی ہے۔ پاکستان میں درجہ حرارت میں جس اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے وہ عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔ شدید درجہ حرارت میں ہونے والے مزید اضافے نے مون سون بارشوں کے وقت اور شدت کو تبدیل کردیا ہے جس کا اظہار رواں سال ہوا۔

ملک کے دیگر علاقوں کے علاوہ شمالی علاقوں کے درجہ حرارت میں جس اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے وہ زیادہ خدشات کا باعث ہے۔ اس کی وجہ سے گلیشیئرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے قدرتی ماحول متاثر ہورہا ہے۔ یہ دریاؤں میں سیلاب کا باعث بھی بن رہا ہے جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

اگرچہ فضائی آلودگی اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا شمار بہت سے ممالک کے بعد کیا جاتا ہے لیکن جب معاملہ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا آتا ہے تو ہم وہاں بھی بہت پیچھے ہی نظر آتے ہیں۔ توانائی کے لیے فوسل فیول پر تقریباً مکمل انحصار نے آلودگی کی سطح کو کم کرنا انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ نہ صرف ہم اب بھی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر استعمال کر رہے ہیں بلکہ ہم ایسے نئے بجلی گھر تعمیر بھی کر رہے ہیں۔

پاکستان نے 2030ء تک آلودگی کے اخراج کو نصف کرنے کا عہد کیا ہے تاہم ہم نے ابھی نیٹ زیرو ہدف کا اعلان نہیں کیا ہے۔ اس وقت فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے جس میں قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع پر تیزی سے منتقل ہونا بھی شامل ہے۔ ہم شمسی توانائی اور توانائی کے دیگر ذرائع استعمال کرنے میں بہت پیچھے ہیں۔

پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی کی اقتصادی لاگت دیگر کئی ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ کہیں زیادہ ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ان شدید بارشوں سے زراعت کے شعبے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

اس وقت موجودہ آفت کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصان کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ تاہم ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے زرعی پیداوار میں کمی آئے گی جس سے پہلے سے ہی کمزور معیشت پر مزید دباؤ پڑے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف بلوچستان میں ہی اب تک 7 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ سندھ اور پنجاب کے زرعی علاقوں میں نقصانات اس سے بھی زیادہ ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیے: کیا کراچی کی قسمت میں ڈوبنا ہی لکھا ہے؟

انفراسٹرکچر کو پہنچنے والا نقصان معاشی بحالی کو بہت مشکل بنا دے گا۔ شدید بارشوں اور سیلاب سے سڑکوں اور ڈیموں کو نقصان پہنچا ہے۔ سڑکوں اور دیگر سہولیات کی بحالی کے ہی اربوں روپے کی ضرورت ہوگی۔ ظاہر کہ اس سے معیشت پر دباؤ پڑے گا۔ تاہم اس سے زیادہ ضروری کام لاکھوں بے گھر لوگوں کی آباد کاری کا ہے جس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی کوششیں درکار ہوں گی۔

بدقسمتی سے یہ تباہی ملک میں جاری سیاسی ہلچل میں گم ہوگئی ہے۔ ایسا رویہ ہماری سیاست کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وجودی اہمیت کے حامل معاملات جیسے موسمیاتی تبدیلی اور اضافہ آبادی کبھی بھی ہمارے سیاسی مباحث کا حصہ نہیں رہے۔

ماضی میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب میں بھی قوم متحد تھی۔ بدقسمتی سے آج کی سیاست نے ملک کو تقسیم کردیا ہے۔ جس وقت عوام مشکل میں گھرے ہوئے ہیں اس وقت ہمارے رہنما اپنے جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔


یہ مضمون 24 اگست 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔