پاکستان

شہباز گل مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے

ایڈیشنل سیشن جج نے فوجداری نگرانی اپیل منظور کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ شہباز گل کو مزید 48 گھنٹے کیلئے پولیس کے حوالے کیا جائے۔
|

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) شہباز گِل کے مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست منظور کرلی۔

ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پولیس کی فوجداری نگرانی کی اپیل منظور کرلی۔

فیصلے کے مطابق شہباز گل کو مزید 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔

قبل ازیں عدالت نے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ مسترد ہونے کے حکم کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سماعت کے دوران اسپیشل پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی اور ملزم شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔

سماعت کے آغاز میں پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے مقدمے کا متن پڑھ کر عدالت کو سنایا۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گِل کی گرفتاری کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے 2 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا، تفتیشی افسر کی جانب سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل کے مزید جسمانی ریمانڈ کی حکومتی درخواست قابل سماعت قرار

ان کا کہنا تھا کہ ملزم بار بار جھوٹ بول رہا ہے، پولی گرافک ٹیسٹ کروانا ہے، پولیس کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کو جوڈیشل مجسٹریٹ عمر شبیر نے مسترد کیا، ملزم سے اس کا موبائل فون برآمد کرنا ہے جس میں سارا مواد موجود ہے۔

پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی نے کہا کہ تفتیشی افسر نے واضح طور پر لکھا کہ محض ریکوری نہیں بلکہ مختلف پہلوؤں پر تفتیش بھی کرنی ہے، ملزم کا موبائل فون اس کے ڈرائیور کے قبضے میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیوٹی مجسٹریٹ کو تمام پہلوؤں کو دیکھنا چاہیے تھا لیکن استدعا مسترد کردی گئی، کس نے ملزم کے اسکرپٹ کی منظوری دی؟ ابھی تفتیش کرنا باقی ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے لکھا کہ شہباز گل نے کہا کہ اس کا موبائل ان کے پاس نہیں بلکہ ڈرائیور کے پاس ہے، جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم کے بیان کو حتمی کیسے مان لیا؟ قانون شہادت کے مطابق یہ درست نہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد

انہوں نے مزید کہا کہ عاشورہ کی وجہ سے سگنل بند ہونے کا جواز بھی درست نہیں ہے، جوڈیشل مجسٹریٹ کا فیصلہ خلاف قانون ہے جسے کالعدم قرار دیا جائے، پولیس نے ایک ایک دن تفتیش سے متعلق پولیس ڈائری میں لکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ استدعا ہے کہ ملزم کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور کی جائے، تفتیش محض ریکوری کا نام نہیں ہے۔

'کچھ چیزیں غلط ہوسکتی ہیں لیکن بغاوت، سازش یا جرم میں نہیں آتیں'

پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ملزم شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کیا۔

سلمان صفدر نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ آپ کے سامنے جو فائل ہے اس کے اندر کیا ہے، ریمانڈ کے دوران کیا کچھ پوچھا گیا کیا لکھا گیا اس کی کاپیاں ہمیں فراہم کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گل نے جو تقریر کی اس کا کچھ حصہ لے کر مقدمہ درج کیا گیا، شہباز گل کی تقریر کا عوامی ردعمل آنے دیا جاتا کہ یہ بغاوت ہے یا نہیں پھر پولیس مقدمہ درج کرتی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کی شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست

سلمان صفدر نے کہا کہ وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر بغاوت کا مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا، عدالت پراسیکیوشن سے معلوم کرے کہ کیا وفاقی کابینہ کی اجازت لی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں پچھلی تاریخوں میں بہت سی چیزیں کردی جاتی ہیں اس لیے عدالت کے سامنے رکھ رہا ہوں، موقع سے جو گرفتار ہوا اس کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ ملا، پراسیکیوشن کے مطابق شہباز گل نے اپنی تقریر تسلیم کرلی، پھر باقی کیا رہا؟

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن زیادہ زور دے رہی ہے کہ شہباز گل نے کسی کے کہنے پر تقریر کی، اینکرز روزانہ سیاسی رہنماؤں کو ٹی وی پر بلاتے ہیں اور وہ روزانہ بولتے ہیں، کچھ چیزیں غلط تو ہو سکتی ہیں لیکن وہ بغاوت، سازش یا جرم میں نہیں آتیں۔

مزید پڑھیں: شہباز گل 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

سلمان صفدر نے کہا کہ پراسیکیوشن کو شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ شریک ملزم تک پہنچنے کے لیے چاہیے، ملزم شہباز گل نے تقریر میں مریم نواز، کیپٹن صفدر، نواز شریف، ایاز صادق بشمول 9 (ن) لیگ کے رہنماؤں کے نام لیے، صاف ظاہر ہے کہ کیس کے ذریعے سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کیس 164 قانون شہادت کا کیس ہے، جسمانی ریمانڈ کا نہیں، ریکوری کسی دوسرے سے نہیں کی جاتی، پولیس نے ڈرائیور سے موبائل لینے پر مقدمہ درج کردیا، پولیس نے ٹی وی چینل سے کوئی تفتیش نہیں کی کہ کس نمبر پر کال کی گئی۔

شہباز گل کے وکیل نے کہا کہ ایک شخص جب بری ہو کر گھر چلا جائے اس کو واپس بلانا بہت مشکل ہوتا ہے، اسی طرح جو شخص جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا جاچکا اس کو واپس جسمانی ریمانڈ پر نہیں بھیجا جاسکتا، اگر شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تو کیس متاثر ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں تو ضمانت کی درخواست پر دلائل دینے آیا تھا یہ ریمانڈ کہاں سے آ گیا، تفتیش کے وقت غیر اخلاقی الفاظ کا استعمال کیا گیا، مقدمہ سیاسی انتقام پر مبنی ہے، مدعی کو اب تک دیکھا ہی نہیں۔

'شہباز گل کو ضمانت ملی تو وہ تفتیش میں تعاون کریں گے'

شہباز گل کے معاون وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ شہباز گل نے بتایا کہ ساری ساری رات مجھ پر تشدد کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ میرے جسم کے نازک اعضا پر تشدد کیا جاتا ہے۔

شعیب شاہین نے مزید کہا کہ میں نے شہباز گل سے پوچھا کیا یہی پولیس تشدد کرتی ہے یا کوئی اور؟ شہباز گل نے بتایا کہ میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گل سے سوال کیا جاتا ہے کہ عمران خان سے ملنے کون آتا ہے؟ عمران خان شراب پیتا ہے یا نہیں؟ اگر یہی تفتیش کرنی ہے تو جیل میں جاکر کرلیں، جسمانی ریمانڈ کیوں چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ کو یہ نظر آگیا لیکن نواز شریف، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کے بیان نظر نہیں آئے، شہباز گل کو ضمانت بھی مل گئی تو وہ تفتیش میں تعاون کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کو بغاوت، عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا، رانا ثنااللہ

بعد ازاں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج دوپہر 3 بجے سنایا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کے دوبارہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم کے خلاف درخواست قابلِ سماعت ہے، سیشن جج درخواست سن کر اس کا میرٹ پر فیصلہ کریں۔

شہباز گل پر تشدد کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے، فواد چوہدری

دریں اثنا عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کے کیس پر 3 گھنٹوں کے طویل دلائل دیے گئے، امید ہے عدالت مزید تشدد کے لیے شہباز گل کو پولیس کے حوالے نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ میں ججز سے بھی کہوں گا کہ آپ انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے ہوتے ہیں، آپ کا یہ کام نہیں ہے کہ اس طرح لوگوں کو ان قصائیوں کے حوالے کردیں اور وہ انہیں مار کُوٹ کر اپنی مرضی کا بیان لے لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پاکستان کا اثاثہ ہیں، ان کی آواز پر پورے ملک میں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کو شہباز گل سے ملنے سے روکا گیا، شہباز گل جو سب سے بڑی جماعت کے لیڈر کا چیف آف اسٹاف تھا اس کو اٹھا لیا گیا، اس پر تشدد کیا گیا جس کی جوڈیشل انکوائری کی جائے۔

مزید پڑھیں: شہباز گل کو اسلام آباد کے بنی گالا چوک سے ’اغوا‘ کیا گیا، پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ

سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان کے علاوہ کوئی ایسی آواز نہیں جو پاکستان کو اکٹھا کر سکے کیونکہ پی ٹی آئی کی جڑیں چاروں صوبوں میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں جبکہ ہماری آزادی کی تحریک بنیادی انسانی حقوق کے لیے ہی ہے۔

فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اداروں کے خلاف سوشل میڈیا مہم کو پی ٹی آئی سے جوڑنا غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ حسن نواز کے بجائے شہزاد اکبر کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا جو کہ ایک احمقانہ فیصلہ ہے کیونکہ حسن نواز سے متعلق شہزاد اکبر کے الزامات سنجیدہ ہیں، ایف آئی اے کو حسن نواز کو الزامات کی بنیاد پر طلب کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آج شہباز گل کے ریمانڈ میں توسیع کی گئی تو پی ٹی آئی پہرہ دے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ان کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ ہوسکے۔

شہباز گل کا متنازع بیان

واضح رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائے’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔

اے آر وائے کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گِل کا متنازع بیان، عماد یوسف کا نام مقدمے سے خارج کرنے کا حکم

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

سابق وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی منظوری

مجھے ساڑھی پہننے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، مشک کلیم

آسٹریلوی وزیر اعظم کا اپنے پیشرو اسکاٹ موریسن پر پانچ عہدے رکھنے کا الزام