پاکستان

بغاوت کی دعوت دینا آزادی اظہارنہیں، سخت ایکشن ہوگا، خرم دستگیر

فتنے کو کچل دینے کا صرف عندیہ دینے سے معیشت میں بے یقینی کی کیفیت ختم ہونا شروع ہو گئی، وفاقی وزیر

وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ باقاعدہ بغاوت کی دعوت دینا قابل قبول نہیں ہے، یہ آزادی اظہار نہیں ہے، یہ جمہوری تنقید نہیں ہے، فاشسٹ جتھے کی طرف سے ہر قسم کا زہر پاکستان کے اداروں پر پھینکا جارہا ہے، حکومت نے سخت ایکشن کا آغاز کیا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ 2014 میں عمران خان نے فسطائیت کی، غیر جمہوری رویوں کی، نفرت بھری زہریلی فصل بوئی تھی، اس کا آغاز بجلی کے بل جلانے سے ہوا تھا، سول نافرمانی کی دعوت دی گئی، بیرون ملک سے پیسے بھیجنے والوں سے کہا گیا تھا کہ وہ بینکوں کے ذریعے اپنی رقوم نہ بھیجیں۔

انہوں نے کہا کہ سول نافرمانی کی دعوت جسمانی صورت میں اس وقت نظر آئی جب ڈنڈے لے کر پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضہ کیا گیا، اسلام آباد پولیس کے درجنوں اہلکاروں کو زدو کوب کیا گیا، زبردستی جتھے کے ذریعے پولیس سے گرفتار شدہ لوگوں کو آزاد کرایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان اپوزیشن رہنماؤں کو نااہل قرار دلوانا چاہتے تھے، خرم دستگیر

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اکتوبر 2016 میں اسلام آباد پر حملہ کیا گیا جسے اٹک پُل پر روک کر پسپا کیا گیا، اس کے بعد ہم نے یہ دیکھا کہ انتہائی غیر منصفانہ فیصلے کے تحت دو تہائی اکثریت والے وزیر اعظم کو تاحیات نااہل کیا گیا، اس دوران مزید فیصلے آئے کہ یہ صدارت بھی نہیں رکھ سکتے، اس کی ایک طویل داستان ہے۔

خرم دستگیر نے کہا کہ اس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھا جس کے بعد اسٹیج سے اگلی گفتگو غدار کی آئی، میر جعفر اور میر صادق، امریکی ایجنڈا اور اندرونی سازش، ملک دشمنی، پاکستان فروشی کی بات کی گئی، حتیٰ کہ یزید تک کا لفظ استعمال کیا گیا، اس قسم کے بیانات کو صرف عمران خان نے نہیں بلکہ ان کی جماعت کے درجنوں سرکردہ رہنماؤں نے سیکڑوں بار دہرایا ہے، اس کے شواہد ناقابل تردید ہے، وہ کیمروں میں محفوظ ہیں۔

'ہم غداری کا کارڈ نہیں کھیلنے دیں گے'

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم غداری کا کارڈ نہیں کھیلنے دیں گے، پاکستان کی تاریخ نے جو سبق دیا ہے وہ یہ ہے کہ غدار کا لقب جس جس کو دیا گیا، ان میں سے بہت بڑی تعداد کو تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ غدار نہیں محب وطن تھے، وہ لوگ صرف آئین اور جمہوریت کا مطالبہ کرتے تھے، وہ ملک میں صوبوں، اقلیتوں، خواتین کے حقوق کا مطالبہ کرتے تھے۔

خرم دستگیر نے کہا کہ ہم نے جب اس فسطائیت کو روکنا شروع کیا ہے اور فتنے کو کچل دینے کا صرف عندیہ دیا ہے، آپ نے دیکھا کہ معیشت میں بے یقینی کی کیفیت ختم ہونا شروع ہو گئی ہے، روپے کی قیمت میں مستقل بہتری آرہی ہے، اسٹاک ایکسچینج بھی بہتر ہو رہا ہے۔

'آنے والی نسلوں کو عمرانی فاشزم کی زہریلی فصل سے بچانا ہے'

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں وسیع البنیاد حکومت مستقل طور پر کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان کے معاشی معاملات بہتر ہوں، پاکستان کے ہمہ جہتی توانائی بحران جس میں بجلی، اس کی قیمت، اس میں ٹیکسز، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سب شامل ہیں لیکن ساتھ ساتھ پاکستان کو جمہوریہ بنانے کا مشن بھی اتنا ہی اہم ہے، پاکستان کے آئین پر عملدرآمد اور آنے والی نسلوں کو جو عمرانی فاشزم کی زہریلی فصل ہے اس سے بچانا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

مزید پڑھیں: بہتر ہے توانائی، بجلی کی قیمتوں پر سخت فیصلے ابھی کرلیے جائیں، خرم دستگیر

ان کا کہنا تھا کہ یہ جو معاشی بحران نظر آرہے ہیں کچھ سے نمٹنے کا تو آغاز ہو گیا ہے، چاہے وہ روپے کی قیمت تھی یا بیرونی اکاؤنٹس میں استحکام تھا، آنے والے دنوں میں مہنگائی میں بھی کمی ہوگی، اگر ہمیں پاکستان میں رہنے والوں میں یہ اعتماد پیدا کرنا ہے کہ یہ ملک آنے والے کل میں آج سے بہتر ہوگا تو یہ صرف معاشی معاملہ نہیں ہے، یہ جمہوریت کا معاملہ ہے، اور پاکستان میں رہنے والے مرد و عورت کی بطور شہری عزت کو قائم کرنے معاملہ ہے اور فاشزم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا سامنا کرنے کا معاملہ ہے۔

وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ وہ حکومتیں جو سیاسی عمل کی تروڑ مروڑ سے پیدا ہوتی ہیں وہ پاکستان کے لیے تباہی لے کر آتی ہیں، اسی طرح عمران خان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ہمہ جہتی بیڑا غرق کیا ہے کہ آج ہم معاشی محاذ پر معاملات کو استحکام دینے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارے تمام دوست ممالک جو روایتی طور پر پاکستان کی مدد کو آتے ہیں، وہ سب پاکستان کی مدد کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ عمران خان نے پاکستان کی سفارتی ساکھ کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

ان کا کہنا تھا کہ آج کے بحران بلاشبہ شہریوں کے لیے تکلیف دہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم شامل حال رہا، اور شہباز شریف کے ساتھ جو 10 جماعتوں کی ٹیم ہے، انہوں نے آج کی طرح اپنی محنت جاری رکھی ہوئی ہے تو یہ عارضی مشکلات جن میں مہنگائی سرفہرست ہے وہ بہتر ہوتے ہوئے نظر آئیں گے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں آئین کی عملداری قائم ہو، اور اس کے لیے پاکستان کی ریاست میں ہماری حفاظت اور سیکیورٹی کے جو ادارے ہیں وہ جب اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہوں تو ان کو لعن طعن نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ شہیدوں کو لعن طعن کرنے میں، آئین کی عملداری کا مطالبہ کرنے میں بہت فرق ہے، جو بلوچستان کے شہریوں کی مدد کے لیے جارہے تھے۔

'ادارے اپنے آئینی حدود میں رہیں تو ان سے زیادہ عزیز کوئی چیز نہیں'

خرم دستگیر نے کہا کہ آج کی وسیع البنیاد حکومت ان جماعتوں پر مشتمل ہے جنہوں نے آئین کی عملداری کا مطالبہ کیا تھا، جنہوں نے کہا تھا کہ اگر ادارے اپنے آئینی رول میں محدود رہیں تو ہمیں ان سے زیادہ معتبر اور عزیز کوئی چیز نہیں، اداروں کے غیر آئینی عمل پر پہلے بھی تنقید کی تھی، اور اب جبکہ ہمیں اس غیر آئینی عمل میں کمی نظر آ رہی ہے ہم اپنے عزم پر قائم ہیں، ان جماعتوں نے ماضی میں جو بھی تنقید کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس قسم کا زہر عمرانی فاشزم نے سوشل میڈیا اور ان کی جماعت کے رہنماؤں نے پھیلایا ہے، حالیہ دنوں میں باقاعدہ بغاوت کی دعوت دیتے ہوئے لوگوں کو سنا ہے، یہ قابل قبول نہیں ہے، یہ آزادی اظہار نہیں ہے، یہ جمہوری تنقید نہیں ہے، فاشسٹ جتھے کی طرف سے جس کو غیر آئینی مدد کی عادت ہوگئی تھی، جو ان کو دستیاب نہیں ہے ان کی طرف سے ہر قسم کا زہر پاکستان کے اداروں پر پھینکا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: رواں ماہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے معاشی استحکام آئے گا، مفتاح اسمٰعیل

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں اس ملک کو آنے والی نسلوں کے لیے مستقل بنیادوں پر جمہوری بنانا ہے، اور جمہوریت کبھی بھی مکمل نہیں ہوتی، یہ ایک مستقل عمل ہے جس کے لیے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور شہریوں نے، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر نے اپنا کام کرنا ہے، اگر ایسی جماعت پیدا ہوگئی ہے جو اپنی زہریلی زبان سے ہتک آئین کی مرتکب ہے تو اس پر حکومت نے سخت ایکشن کا آغاز کیا ہے، اور مزید ہوگا، پاکستان کے قانون میں درج جو بنیادی حقوق اور آزادی اظہار کی آزادی بھی کرنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ دن پہلے تک اسی شہر میں صحافیوں پر گولیاں چلی تھیں، صحافی اغوا ہوئے تھے، صحافیوں کے گھروں پر جاکر انہیں زدوکوب کیا گیا تھا، اب ایسے واقعات نہیں ہو رہے، ہمیں فرق کرنا ہے کہ آزادی اظہار کیا ہے، اور آئین کے آرٹیکل 19 اے میں آزادی کے ساتھ کچھ ممانعت بھی ہے، ہمیں ان سب چیزوں کو سامنے رکھ کر آگے جانا ہے۔

خرم دستگیر نے کہا کہ معاشی معاملات میں بہتری آرہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ جب تک موسم خزاں کا آغاز ہو گا تو یہ بہتری مزید گہری ہوتی نظر آئے گی اور پاکستان میں رہنے والوں کے لیے مزید خوشخبریاں لاتی ہوئی نظر آئے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان بھی ایک ادارہ ہے، پارلیمان پر بھی کوئی لعنت بھیجتا ہے تو وہ بھی آزادی اظہار کی آزادی نہیں ہے، تمام اداروں کی حرمت کو قائم رکھنا ہے۔

پی ٹی آئی قیادت کو شہباز گل کے بیان سے الگ ہونا چاہیے، پرویز الہٰی

’لبرل، فیمنسٹ ہوں‘ رجعت پسند خیالات پر کھل کر بات کرتی ہوں، ارمینہ خان

بھارت کی جانب سے 14 اگست کو 'تقسیم کی ہولناک یادوں' کے طور پر منانے کی شدید مذمت