پاکستان

مسلم لیگ(ن) کی اسپیکر پنجاب اسمبلی کا الیکشن کالعدم قرار دینے کی استدعا

بیلٹ پیپرز پر سیریل نمبر درج کرنا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے، الیکشن خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے، ہائی کورٹ میں درخواست

مسلم لیگ (ن) نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کا الیکشن لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کی درخواست کی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے منصور عثمان اعوان کی وساطت سے دائر کی گئی درخواست میں نومنتخب اسپیکر سبطین خان سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کے سبطین خان پنجاب اسمبلی کے اسپیکر منتخب

درخواست میں اپنایا گیا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گیے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی کا الیکشن خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے اور اس الیکشن میں بیلٹ پیپرز پر سیریل نمبر درج کرنا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ لاہور ہائی کورٹ اسپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخاب کو کالعدم قرار دے اور انتخاب دوبارہ کروانے کا حکم دیا جائے۔

ادھر مسلم لیگ (ن) سینئر رہنما عطا تارڑ نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل اسپیکر پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے دوران انکشاف ہوا کہ کچھ بیلٹ پیپرز اور اس کے ساتھ ساتھ کاؤنٹر فائلز پر بھی سیریل نمبر درج تھا، تو یہ تو آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی: اسپیکر کے انتخاب، ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد

انہوں نے کہا کہ ایک سیریل نمبر کاؤنٹر فائل پر موجود ہے اور وہی سیریل نمبر بیلٹ پیپر پر درج ہے، یہ اس لیے کیا گیا تاکہ ووٹر کی شناخت ہو سکے اور مسلم لیگ(ق) کے ہائی جیک کرنے کے بعد تحریک انصاف کی باقیات نے فیصلہ کیا کہ دھاندلی کی جائے اور کس نے کس طرف ووٹ کاسٹ کیا یہ پتہ لگا کر جزا سزا کا نظام قائم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے استدعا ہے کہ آج اس مقدمے کو سنا جائے، ہمارے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جب آئین کہتا ہے کہ خفیہ رائے شماری ہو گی تو پھر کس طریقے سے یہ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرایا گیا۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ ہماری اس رٹ پٹیشن کے ذریعے استدعا ہے کہ اس الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ یہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں کرایا گیا اور خفیہ رائے شماری کے اصول کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوڈیشل وزیراعلیٰ این آر او کے لیے لایا گیا ہے کیونکہ فرح گوگی کو این آر او دینا مقصود تھا اور کوئی یہ نہ بھولے کہ وزیراعلیٰ کو صرف ایک ووٹ کی برتری حاصل ہے تو یہ بہت زیادہ دیر چلتی حکومت نظر نہیں آتی، 197 ووٹ والے حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ نہیں رہی تو ان کی ایک ووٹ کی وزارت اعلیٰ کیسے رہے گی۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں کیلئے رسہ کشی

واضح رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد اسپیکر کا عہدہ خالی ہوگیا تھا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن سبطین خان پنجاب اسمبلی کے نئے اسپیکر منتخب ہوگئے تھے۔

سبطین خان کو 185 ووٹ ملے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سیف الملوک کھوکھر نے 175 ووٹ لیے اور 4 ووٹ مسترد ہوئے تھے۔

نومنتخب اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے کامیابی کے فوری بعد اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔