پاکستان

زیارت سیکیورٹی فورسز آپریشن، حکومت کا جوڈیشل انکوائری کروانے کا فیصلہ

محکمہ داخلہ نے رجسٹرار بلوچستان ہائیکورٹ سے انکوائری کے لیے عدالت عالیہ کے ایک جج کا نام تجویز کرنے کی درخواست کی۔
|

حکومتِ بلوچستان نے زیارت میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن سے متعلق جوڈیشل انکوائری کروانے کا فیصلہ کرلیا۔

خیال رہے کہ ڈی ایچ اے کوئٹہ میں تعینات لیفٹننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا کو زیارت کے علاقے وارچوم سے ان کے کزن عمر جاوید کے ہمراہ اس وقت اغوا کرلیا گیا تھا جب وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ کوئٹہ واپس جارہے تھے۔

لئیق مرزا زیارت میں قائد اعظم ریذیڈنسی کا دورہ کرنے گئے تھے، وہاں سے واپسی پر 10 سے 12 مسلح افراد نے ان کی گاڑی کو روکا اور دونوں افراد کو اغوا کر لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: زیارت آپریشن میں ہلاک 5 افراد کا تعلق دہشت گرد گروپ سے تھا، ضیا اللہ لانگو

واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد پاک فوج کی کوئیک ری ایکشن فورس فوری طور پر روانہ کی گئی جس نے سراغ لگایا کہ عسکریت پسند منگی ڈیم کی طرف اپنے خفیہ ٹھکانوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اس کے بعد فوج کے ایلیٹ ایس ایس جی کمانڈوز نے متاثرین کی بازیابی کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا تھا، فورسز کو قریب آتے دیکھ کر عسکریت پسندوں نے لیفٹننٹ کرنل لئیق مرزا کے سر میں گولی مار دی اور فرار ہونے کی کوشش کی۔

فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد مارے گئے تھے اور ان کے قبضے سے آئی ای ڈیز، دھماکا خیز مواد اور گولہ بارود کا ذخیرہ بھی برآمد کیا گیا تھا جبکہ باقی عسکریت پسند فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

بعد ازاں فوجی افسر کے ہمراہ اغوا کیے گئے ان کے کزن کی بھی لاش زیارت کے علاقے وارچوم میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران برآمد کرلی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: زیارت سے دو روز قبل اغوا کیے گئے فوجی افسر کی لاش برآمد

آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ فائرنگ کے تبادلے کے دوران دو دہشت گرد مارے گئے جن کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کر لیا گیا ہے۔

ساتھ ہی بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے کی کلیئرنس کے بعد پورے علاقے کو صاف کیا گیا۔

اس حوالے سے وزیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو نے ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ لیفٹننٹ کرنل لئیق بیگ کے قتل کے بعد سیکیورٹی فورسز نے زیارت کے علاقے میں ایک بڑا آپریشن کیا تھا۔

ان کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے گئے حالیہ آپریشن میں ہلاک ہونے والے 9 میں سے 5 افراد کا تعلق ایک دہشت گرد تنظیم سے تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’تاہم ان کے نام لاپتا افراد کی فہرست میں شامل تھے جو ’وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز‘ نامی تنظیم نے تیار کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: زیارت سے اغوا کے بعد قتل کیے گئے فوجی افسر کے کزن کی لاش برآمد

ضیا اللہ لانگو کا یہ تبصرہ بی این پی-مینگل، نیشنل پارٹی اور کچھ بلوچ قوم پرست گروہوں کے اس دعوے کے پس منظر میں سامنے آیا کہ اس آپریشن میں مارے گئے 5 'عسکریت پسند' درحقیقت لاپتا افراد تھے اور وہ مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کے اٹھانے کے بعد لاپتا ہوگئے تھے۔

ان جماعتوں نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

چنانچہ بلوچستان کے محکمہ داخلہ نے صوبائی ہائی کورٹ کو مراسلہ ارسال کر کے کہا ہے کہ صوبائی حکومت زیارت آپریشن سے متعلق عدالتی انکوائری کروانا چاہتی ہے۔

مراسلے میں کہا گیا کہ عدالتی انکوائری زیارت آپریشن میں مارے جانے والے افراد کے زیر حراست ہونے یا نہ ہونے سے متعلق ہے۔

ساتھ ہی محکمے نے رجسٹرار ہائی کورٹ سے عدالتی انکوائری کے لیے عدالت عالیہ کے ایک معزز جج کا نام تجویز کرنے کی بھی درخواست کی۔

85 ممالک، دو ہزار جامعات کے ڈیڑھ لاکھ طلبہ میں مقابلہ، 3 پاکستانی فاتح

دوسرا ٹیسٹ: 508 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان کے ایک وکٹ پر 89رنز

یورپی یونین کا روسی گیس کے استعمال میں کمی کے معاہدے پر اتفاق