عمران خان کے کسی قدم کے جواب میں فیصلہ ہوا تو ٹکا کر جواب دیا جائے گا، خواجہ سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے پارلیمان کی قانون سازی کا ہر صورت دفاع کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے عمران خان کے کسی قدم کے جواب میں فیصلہ کیا گیا تو ٹکا کر برابر جواب دیا جائے گا اور وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔
لاہور میں حکمران اتحاد کے اجلاس کے بعد دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین، سربراہان اور نمائندگان نے اجلاس میں شرکت کی جہاں پاکستان کی سیاسی، معاشی اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مزید پڑھیں: عمران خان چیف الیکشن کمشنر کو جاوید اقبال بنانا چاہتے ہیں، وزیر اطلاعات
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، سندھ حکومت، بلوچستان اور خیبرپختونخوا (کےپی) حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور ملک کی بہتری کے لیے تمام قدامات بروئے کار لائے گی، اس سلسلے میں ابہام پھیلانے اور شوشے چھوڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔
'پنجاب کے ضمنی انتخابات مقبولیت کا پیمانہ نہیں'
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پنجاب کے ضمنی انتخابات کسی جماعت کی مقبولیت یا عدم مقبولیت کا پیمانہ نہیں ہے کیونکہ یہ 20 نشستیں ایسی ہیں جو 2018 میں مسلم لیگ (ن) میں ایک بھی نہیں ملی تھی، یہ پی ٹی آئی یا آزاد تھے، جنہیں توڑ کر سازش کے تحت آزاد لڑوایا گیا تھا اور یہ سازش عمران خان کے لیے تیار کی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ 5 نشستیں مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں نے مل کر جیتی ہیں اور یہ ہمیں فتح حاصل ہوئی ہے، عمومی طور پر ہمارے ووٹ بینک میں 2018 کے مقابلے میں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے تو کس بات کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور کون سا طوفان ہے جو تھم نہیں رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جو طوفان آیا ہے یہ بھی تھمے گا اور اس کے آگے بند بھی باندھا جائے گا، اس جھوٹ، فتنے اور سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا، ہمارے اراکین توڑوں تو وہ حاجی بن جاتے ہیں اور تمہارے اپنے سیاسی حق کی بنیاد پر ڈنکے کی چوٹ پر تمہیں چھوڑ دیں تو ان کو برا کہتے ہو جو فعل عمران خان کے حق میں ہو وہ ٹھیک ہے اور جو تمہاری مرضی کے خلاف ہو وہ غلط ہوتی ہے تو کیا تم دودھ کے دھلے ہوئے ہو۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ‘یہ ایک گمراہ آدمی ہے اور گمراہوں کا ایک گروہ تیار کر دیا ہے، یہ گروہ ہرجگہ موجود ہے اور بعض لوگ اب تک اپنی اصلاح کے لیے تیار نہیں ہیں’۔
یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ سے تنخواہیں، مراعات وصول کرنے والے آج ایوان پر حملہ آور ہوئے، مریم اورنگزیب
انہوں نے کہا کہ ‘یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک جھوٹا جو سازش کرکے اور بچہ جمورا بن کر اقتدار میں آیا تھا وہ آج ووٹ کو عزت دینے کی بات کرے، ہماری جماعتوں اور قیادتوں نے اس ملک میں آئین اور جمہوریت کی سربلندی کے لیے جانیں دی ہیں، جیلیں کاٹی ہیں، جلاوطنی کاٹی ہیں اور جانی مالی قربانیاں دی ہیں، اس آوارہ گرد کا کیا لگا ہے’۔
'عمران خان پرویز مشرف کے بوٹ پالش کرتا رہا '
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ تو صرف آوارہ گردی کرتا رہا ہے اور سب سے پہلے پرویز مشرف کے گھٹنوں پر جھکا تھا اس کے بوٹ پالش کرنے کے لیے، دوسروں کو چیری بلاسم کہتا ہے اور خود سر سے پاؤں تک خوشامد ہے، ہمیشہ امپائر کے ساتھ مل کر کھیلا ہے’۔
عمران خان کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ ‘کبھی غیرجانب دار ہو کر نہیں کھیلے ہو، 2011 سے اس کے بوٹ پالش کی جارہی ہے کہ جمہوری قوتوں کو کمزور اور اس آدمی کو مضبوط کرو’۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اس کا ‘ایجنڈا کیا ہے، ابھی کھل کر سامنے نہیں آیا، کچھ آگیا ہے اور کچھ آنے والا ہے، اس شخص کے 4 سال کے کرتوت ہیں جن کی وجہ سے پاکستان معاشی دیوالیہ پن کی دہلیز پر آکھڑا ہوگیا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے پہلے بھی کہا ہے ہمارے لیے پیچھے ہٹنا اپنی سیاست بچانا خوب آتا تھا لیکن ہم نے یہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں حکومت کا کانٹوں کا ہار اپنے گلے میں ڈال دیا ہے، یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے اور یہ ہمیں اس وقت بھی معلوم تھا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں معلوم تھا کہ آگے سرنگیں ہیں اور خطرات ہیں لیکن کیا کرتے، ہم اپنے ملک کو چھوڑ کر بھاگ جاتے لیکن اپنے ملک کو چھوڑ کر بھاگا نہیں جاتا’۔
'عمران کی حکومت میں صحافیوں کو آف ایئر کیا گیا'
رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ‘عمران خان کی حکومت میں صحافت کو زنجیریں پہنائی گئیں، صحافیوں کو آف ایئر کیا گیا، سیاسی کارکنان کو اختلاف رائے کی بنیاد پر جیلوں میں ٹھونسا گیا لیکن معذرت کے ساتھ اس وقت نظام عدل سویا ہوا تھا، اس وقت عدالتیں سوئی ہوئی تھیں اور ہمارے مقدمات نہیں سنے جاتے تھے’۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان نے چور دروازے سے ملاقات مسترد ہونے پر الیکشن کمشنر پر یلغار کر دی، مریم اورنگزیب
انہوں نے کہا کہ ‘جب ریٹائر ہوجاتے ہیں تو پھر نجی مجلسوں میں آکر معذرت کر رہے ہوتے ہیں، کسی کا نام نہیں لوں گا لیکن سوال اٹھایا گیا تو پھر نام بھی لوں گا، تو پھر آپ اسی وقت گندے کام اور گندا دھندا نہ کریں، جمہوریت کو آلودہ نہ کریں، آئین پر شب خون نہ ماریں اور آئین سے کھلواڑ نہ کریں’۔
'نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے نہیں ہونے چاہئیں'
وفاقی وزیر نے کہا کہ ‘کسی کی بھی حکومت ہو نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے نہیں ہونے چاہیئں لیکن ماضی میں ایسا نہیں ہوا اور آخر کار طویل قیدیں کاٹنے کے بعد ایک،ایک کرکے پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں سے لوگ آئے، ان فیصلوں کو پڑھا جائے، وہ فیصلے منہ بولتے ہیں’۔
نیب کے حوالے سے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘نیب کے ڈریکونین دور اور قانون کے منہ پر طمانچہ ہیں، اس لیے آج اگر کوئی نیب کے پرانے قانون کی حمایت کرے، وہ کوئی بھی اور اس کا تعلق کسی بھی جگہ سے ہو وہ آئین اور جمہوریت کا دوست نہیں ہوسکتا، وہ انصاف کی بات نہیں بلکہ انصاف کا خون ہی ہوگا’۔
انہوں نے نیب کے مقدمات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘لوگوں کو بدنام اور رسوا کیا گیا اور کیونکہ پونے چار سال میں کسی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آسکا، ثبوت اور شواہد ہی کوئی نہیں تھا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس وقت اخبار کی خبروں پر نیب کارروائی کرتی تھی، اب کارروائی کیوں نہیں ہورہی ہے، نیب تو ایک آزاد ادارہ ہے’۔
'توشہ خانہ اور بلین ٹری سونامی کرپشن پر نیب کہاں ہے'
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ‘جب توشہ خانہ کی بات ہوتی ہے تو اب کارروائی کرنے والے کدھر ہیں، جب بلین ٹری سونامی کی بات ہوتی ہے، جب ان کے اہل خانہ کے کرپشن کی بات ہوتی ہے، اس کا بھی نوٹس لیا جانا چاہیے’۔
حکومتی اتحادیوں کے اجلاس کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘آج کے اجلاس میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا اور ہمیں کہا گیا ہے کہ اس کو میڈیا کے ذریعے قوم اور اداروں تک پہنچائیں کہ آخر کیا وجہ ہے الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کرتا’۔
'فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے'
انہوں نے کہا کہ ‘ہم پوری آواز کے ساتھ مطالبہ کرتے ہیں کہ برسوں سے زیر التوا فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ’20 حلقوں میں سے 15 سیٹیں پی ٹی آئی جیتے، شام تک یہ کہیں عدالتیں کھولو دھاندلی ہو رہی ہے لیکن جب نتائج اپنی مرضی کے آنے شروع ہوئے تو رونا بند کردیا’۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘جب نتائج آگئے تو کہا کہ الیکشن کمشنر استعفیٰ دے وہ جانب دار ہے، یہ ان سب کے لیے پیغام ہے جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ غیرجانب داری میں آوازیں نہیں کسی جائیں گی تو آوازیں کسی جائیں گی کیونکہ پی ٹی آئی کی روایت ہی ایسی ہے’۔
'پی ٹی آئی کو مرضی کا چیف جسٹس اور آرمی چیف چاہیے'
پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘انہیں مرضی کا چیف جسٹس چاہیے، مرضی کا چیف آف آرمی اسٹاف چاہیے، ایک کٹھ پتلی صدر اور مرضی کا میڈیا چاہیے، اگر یہ دے سکتے ہیں تو نام نہاد امیرالمومنین کے سینے میں ٹھنڈ پڑے گی’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اگر آپ اپنی ضمیر کے مطابق اپنی آواز بلند کریں گے تو وہ سر قلم کریں گے، آپ کو جیل میں ڈالیں گے، اور کچھ نہیں تو آپ کو غدار قرار دیں گے، چور بنانے کی کوشش کریں گے’۔
'عمران خان کے پاس سوشل میڈیا پر خرچ کرنے کیلئے کروڑوں کہاں سے آتے ہیں'
ان کا کہنا تھا کہ ‘عمران خان سوشل میڈیا پر کروڑوں خرچ کر رہے ہیں یہ کدھر سے آ رہے ہیں، اس کا بھی سراغ لگایا جائے گا کہ یہ پیسہ کہاں سے اور کن مقاصد کے لیے آرہا ہے’۔
وفاقی وزیر ریلوے نے کہا کہ ‘ضمنی انتخابات مقبولیت کا پیمانہ نہیں ہیں، ہم نے آپ کی 5 سیٹیں جیتی ہیں، ہمارے ووٹ بڑھے ہیں اور ہمارا ووٹ بینک محفوظ ہے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے’۔
یہ بھی پڑھیں: ثابت ہوا ریاستی اداروں اور حکومت نے کوئی دھاندلی نہیں کی، خواجہ سعد رفیق
سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ‘جب اس کی مرضی کا فیصلہ نہیں آتا ہے تو یہ کہتا ہے ملک کے ٹکڑے ہوجائیں گے، خاکم بدہن، پاکستان پر ایٹم بم برسانے کی باتیں کرتا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس کو کچھ نظر نہیں آتا ہے اگر کچھ ملتا نظر آتا ہے تو اس کو کچھ سکون ملتا ہے، یہ سازشی بھی ہے، بڑے سازشی دیکھے لیکن عمران خان اور اس کے ٹولے جیسے سازشی نہیں دیکھے’۔
'پارلیمان کے اختیار اور حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا'
وفاقی وزیر نے کہا کہ 'پارلیمنٹ کے فیصلوں کی بات ہوتی ہے تو ہم پارلیمانی نمائندہ قوتیں اور سب جمہوری قوتیں باآواز بلند یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمان کے فیصلوں کا احترام کیا جائے'۔
انہوں نے کہا کہ 'قانون سازی ہمارا اختیار اور حق ہے، اس اختیار اور حق پر بالکل کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور اس پر خاموش بھی نہیں رہا جائے گا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے وسیع مفاد کے اندر پارلیمان کوئی کام کرے تو اس کو معطل کردیا جائے، یہ افسوس ناک ہے، اس کی پاکستان کے وفاقی پارلیمانی نظام اور 1973 کے آئین میں گنجائش نہیں ہے'۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ 'پی ڈی ایم، پاکستان پیلزپارٹی (پی پی پی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور جو ہم سب اکٹھےہیں، ہم بڑے ادب کے ساتھ یہ گزارش بھی کرنا چاہتے ہیں کہ 63 اے کی تشریح پر عدالتی فیصلے پر ہمارے اعتراضات ہیں اور سمجھتےہیں یہ فیصلہ آئین کی روح سے متصادم ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'اس حوالے سے سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست کئی دنوں سے سپریم کورٹ میں پڑی ہوئی ہے، ہماری استدعااور اپیل ہے کہ اس نظرثانی کو فل کورٹ سنے اور اس پر جلد از جلد فیصلہ دیا جائے'۔
'آئین میں اختیارات کی تقسیم واضح ہے'
خواجہ سعد رفیق ہم پھر کہنا چاہتے ہیں کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم واضح ہے، قانون سازی پارلیمان کا حق ہے، ہم سمجھتے ہیں اس میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور اس کا ٹولہ چاہتا ہے کہ عدالتوں کے کندھوں پر چڑھ کر آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کروائے، یہ اداروں کو متنازع بنانے کی سازش کر رہا ہے۔
عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھی کہتے ہیں ان کےمنہ کو خون لگا ہوا ہے اور جب فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق آتا ہے تو یہ نشانہ بناتے ہیں، ہم نے ایسا نہیں اور نہ کریں گے۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ‘لیکن عمران خان کی کسی شیطانی قدم کے جواب میں فیصلہ ہوا تو خاموش نہیں رہا جائے گا اور ٹکا کے برابر جواب دیا جائے گا’۔
انہوں نے کہا کہ یہ جو انتخابات ہوئے ہیں اس سے ثابت ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیرجانب دار تھے، اس کو تسلیم کیا جانا چاہیے، اس کی تحسین کی جانی چاہیے لیکن ہمیں 5 سیٹیں ملی ہیں ہم تسلیم کر رہے اور جن کو 15 سیٹیں ملی ہیں وہ رو رہا ہے۔