فضائی میزبان کی آپ بیتی: سیفٹی سینڈوچ اور عملی مظاہرہ
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
جب سارے مسافر نشستوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور جہاز کے دروازے بند ہوجاتے ہیں تو اسقبالیہ اعلانات شروع کیے جاتے ہیں۔ خوش آمدیدی پیغام، پرواز کا نام، روانگی کا مقام، پرواز کی بلندی اور پہنچنے کا وقت وغیرہ بتایا جاتا ہے۔ پھر حفاظتی اقدامات کے عملی مظاہرے کا وقت آتا ہے۔ چھوٹے جہاز پر ایک ایک اور بڑے جہازوں پر 2، 2 فضائی میزبان درجہ اوّل دوم اور سوم کے آغاز میں کھڑے ہوکر یہ پرفارمنس دیتے ہیں۔
اس میں حفاظتی بند باندھنے اور کھولنے کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔ سمندر یا دریا راستے میں آتا ہو تو ہنگامی حالت میں لائف جیکٹ پہننے اور پھلانے کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں جہاز سے باہر نکلنے کے راستوں کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ اگر ہنگامی حالات میں جہاز سے باہر نکلنا پڑے تو راستے کہاں کہاں واقع ہیں۔
یہ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ لوگ پریشانی میں اسی دروازے کی طرف بھاگتے ہیں جہاں سے وہ جہاز میں داخل ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک ہی دروازے پر ہنگامی حالت کے دوران دباؤ بڑھ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہٰذا باقی دروازوں کی نشاندہی اس لیے کی جاتی ہے تاکہ مسافروں کی تعداد تقسیم ہوجائے اور سب آسانی سے نکل سکیں۔
’حفاظتی عملی مظاہرے کے دوران آپ کی پوری توجہ درکار ہے‘
یہ اعلان اردو اور انگریزی، دونوں زبانوں میں کیا جاتا ہے لیکن ہمارے زیادہ تر لوگ بہ وجوہ پرتگالی زبان کے ماہر ہونے کے اس مظاہرے پر زیادہ دھیان نہیں دیتے اور اپنے جانو مانو، والدین یا دوستوں کو الوداعی پیغامات بھیجنے میں مصروف ریتے ہیں۔ یہ بہت غلط بات ہوتی ہے۔ پوری توجہ سے یہ عملی مظاہرہ دیکھنا چاہیے خاص طور پر جو لوگ پہلی بار جہاز کا سفر کر رہے ہوں۔ ویسے تو زیادہ سفر کرنے والوں کو بھی اس وقت توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کیونکہ بُرا وقت بتا کر نہیں آتا اور کیا معلوم ہنگامی حالات، آپ کے اوسان کے علاوہ کچھ اور بھی خطا کروا جائیں۔ پھر آپ کو اپنی خطا یاد آئے کہ میں نے عملی مظاہرے کے وقت توجہ نہیں دی۔
ہنگامی حالات کے لیے تیار رہنا صرف جہاز کے سفر کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ ٹرین،گاڑی اور بس کے سفر میں بھی خیال رکھنا چاہیے کہ خدا نخواستہ اگر کوئی حادثہ یا ہنگامی صورتحال پیش آجائے تو اس سواری سے نکلنا کیسے ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ اب اگر آپ جہاز کے ٹوائلٹ میں ہیں اور ہوا کا دباؤ کم ہوگیا (جو مسافروں کے آرام سے سانس لینے کے لیے جہاز میں قائم رکھا جاتا ہے) تو آپ کا کیا بنے گا۔
مگر ٹینشن نہیں لینی آپ نے۔ آکسیجن ماسک ٹوائلٹ میں بھی آپ کی سانس روا رکھنے کے لیے خود بخود آپ کے سامنے گر پڑے گا۔ بس اسے کھینچ کر ناک اور منہ پر رکھ کر حسب معمول سانس لیں۔
جیسا کہ آپ کو قدیم آریائی اور ساسانی اقوام کی اس روایت کا پتہ ہی ہوگا کہ اکثر مسافر ہوائی اڈے کے لاونج میں ٹوائلٹ جانا پسند نہیں کرتے اور جہاز کے اندر قدم رکھتے ہی نیفے تھام لیتے ہیں۔ زمانہ قبل مسیح سے یہ رواج عام تھا کہ مائیں پرواز میں سوار ہونے سے پہلے بچوں کو مادری زبان میں کہتی تھیں کہ
"پتر! اتھاوں فارغ تھی ون"(بیٹا! یہیں (لاونج میں موجود ٹوائلٹ) سے فارغ ہو لو
مگر مورخین نے لکھا ہے کہ بچے ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ
"نہ اماں! جہاز اچ ونج کریساں"( نہیں امی! میں جہاز میں ہی جا کر کروں گا)
چنانچہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے تقریباً ہر پرواز پر ایسے مہمانانِ گرامی سے واسطہ پڑجاتا تھا۔ ایسے ہی ایک مرتبہ حفاظتی عملی مظاہرہ شروع ہونے لگا تو قریبی نشست پر بیٹھے ایک لڑکے نے میرا بازو تھام کر مجھے روکنے کی کوشش کی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو کہنے لگا
’انکل میڑے ابو لیٹڑین گے ہیں۔ ابھی ڑک جائیں انہوں نے بھی دیکھنا ہے۔‘(انکل میرے ابو ٹوائلٹ گئے ہوئے ہیں۔ ابھی رک جائیں تاکہ وہ بھی واپس آ کر دیکھ سکیں)
میں نے کہا آپ مجھے بتا دیجیے گا میں ان کو الگ سے سمجھا دوں گا۔ وہ مان گیا۔ ابھی جہاز زمین پر ہی تھا کہ تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا اپنے والد کو ساتھ لے کر میرے پاس آگیا۔ مجھے مخاطب کرکے اپنے والد کی جانب اشارہ کیا اور کہنے لگا
یےڑا ابو(یہ رہا ابو)
میں کہنے ہی والا تھا کہ والد صاحب کو گالی دینا غلط بات ہے لیکن پھر ایک سیکنڈ میں ہی میں نے اس بات کو ڈی کوڈ کیا تو سمجھ گیا وہ لڑکا کیا کہنا چاہ رہا ہے۔ میں نے ان کے والد صاحب کو مختصراً ساری اہم باتیں بتاکر واپس نشست کی طرف روانہ کردیا۔
عملی مظاہرے کے دوران لائف جیکٹ کو پہن کر استعمال کا طریقہ بتانا ہوتا ہے۔ 2 قسم کی لائف جیکٹ جہاز پر آتی ہیں۔ سنگل چیمبر اور ڈبل چیمبر۔ سنگل چیمبر میں ایک سلینڈر ہوتا ہے اور ڈبل چیمبر میں 2 سلینڈر۔ ان کے ساتھ چھوٹی سی رسی ہوتی ہے جس کو کھینچنے سے لائف جیکٹ میں ہوا سلینڈر سے نکل کر جیکٹ میں بھر جاتی ہے۔ اس کے علاوہ 2 ربڑ کی نالیاں (ٹیوب) بھی بنی ہوتی ہیں جن میں پھونک مار کر بھی ہوا بھری جاسکتی ہے۔
پہلی مرتبہ لائف جیکٹ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے میں نے اتنی زور زور سے نالیوں میں پھونک مار دی کہ لائف جیکٹ میری گردن پر وارث ڈرامے والے چوہدری حشمت کی ’آکڑ‘ کی طرح اکڑ کر پھنس گئی۔ مجبوراً مجھے واپس گیلی (گے-لی) میں جاکر اسے ’ان پھونک‘ کرنا پڑا۔ وہ ایسے کے ان نالیوں (ربڑ کی ٹیوب) کے اوپر ایک چھوٹا سا بٹن لگا ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح سے ڈھکن کا کام کرتا ہے جو اندر گئی ہوا کو باہر آنے سے روکتا ہے۔ اس کو اور لائف جیکٹ کو دبا کر ہوا نکالی جاسکتی ہے۔ چنانچہ ان کو دبانے کے ساتھ ساتھ میں نے اپنے جذبات کو بھی ڈھکن لگایا اور عملی مظاہرہ پورا کیا۔
یہ جذبات اس وجہ سے تھے کہ تربیت کے دوران ابتدائی طبّی امداد، ہنگامی حالات میں لوگوں کو سنبھالنے کے طریقے اور جہاز سے متعلق حفاظتی اقدامات سیکھتے ہوئے ایسا لگنے لگا تھا کہ کوئی حادثہ ضرور پیش آجائے گا کسی پرواز پر اور ذمہ داری کا احساس اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ اپنی قمیض کے پیچھے ’زندگی بچانے والی ادویات‘ کا پوسٹر لگا کر گھومنے کا دل کرتا تھا۔ معاف کیجیے گا میرا مطلب ہے ’زندگی بچانے والا انسان‘۔ اوپر سے باقی کسر میں نے نیشنل جیوگرافک کے جہازوں کے حادثات سے متعلق پروگرام دیکھ دیکھ کر نکال دی تھی۔ خواب بھی ایسے ہی آنے لگے تھے اس زمانے میں۔
شروعات میں اسی جوش و جذبے میں ڈوبا جب میں جہاز پر پہنچتا تو یہ دیکھ کر کہ مسافروں کو حفاظتی تدابیر کے بارے میں جاننے سے زیادہ دعوت شربت و طعام میں دلچسپی ہے تو میرا سارا جوش و خروش آم کی پیٹیاں بنانے والے لکڑی کے سخت پھٹوں کی مانند سوکھ جاتا۔ یہاں تک کہ ایک صاحب نے دورانِ سروس پیش کیے جانے والے سینڈوچ کے بارے میں پوچھا کہ یہ کیسا ہے تو میرے منہ سے نکلا ’سر! یہ کافی سیفٹی سینڈوچ ہے‘۔ ٹیسٹی کی جگہ سیفٹی تو میں کہہ چکا لیکن شکر ہے کانوں میں ٹوٹیاں لگائے ان صاحب کو شاید ٹیسٹی ہی سمجھ آیا مگر میرا ساتھی یہ سن چکا تھا اور بعد میں اس بات پر میری خوب ٹیسٹی ہوئی، یعنی بیستی۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔