آئی جی سندھ کی سوشل میڈیا پر ‘لسانی تعصب’ پھیلانے والے افراد کی نگرانی کی ہدایت
انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سندھ غلام نبی میمن نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے کہا ہے کہ حیدر آباد میں نوجوان کے مبینہ قتل کے بعد سوشل میڈیا میں لسانیت کی بنیاد پر نفرت انگیز اور پروپیگنڈا کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔
آئی جی سندھ نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے نام خط میں کہا ہے کہ 11 جولائی کو حیدرآباد بائی پاس کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں لڑائی کے دوران ‘تشدد سے ایک نوجوان کو قتل کیا گیا’۔
مزید پڑھیں: کراچی: لسانی فسادات کے الزام میں 45 سے زائد افراد گرفتار
انہوں نے کہا کہ وادھو واہ کے قریب بھٹائی نگر تھانے کی حدود میں سپرسلاطین ہوٹل میں ‘کھانے کے بل کے تنازع’ کے بعد مبینہ طور پر ہوٹل کے مالک کی فائرنگ سے بلال کاکا جاں بحق اور ان کا دوست زخمی ہوگیا۔
خط میں انہوں نے نشان دہی کی کہ ‘چند شرپسند گروپس نے سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانا شروع کردی، جس کے نتیجے میں سندھ کے بڑے شہروں میں سندھی اور پختونوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی اور امن و امان کے سنجیدہ مسائل کھڑے ہوئے’۔
آئی جی سندھ نے ایف آئی اے کے سربراہ سے درخواست کی کہ سندھ زون کے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر کو ضروری ہدایات جاری کریں کہ اس طرح کی سرگرمیوں کی سختی سے نگرانی کریں اور کسی بھی ناخوش گوار حالات سے بچنے کے لیے لسانی بنیاد پر ہونے والی سازشی عمل کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
پولیس کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ سندھ پولیس اور ایف آئی اے مشترکہ طور پر ایسے عناصر کے خلاف قانونی کارروائی شروع کریں گے جو عوام میں اضطراب اور خوف پیدا کرتے ہیں۔
آئی جی غلام نبی میمن نے کہا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور جھوٹی خبریں، لسانی تعصب پھیلانے اور دیگر غیرقانونی سرگرمیاں کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کی نگرانی شروع کی جاچکی ہے۔
انہوں زور دیتے ہوئے کہا کہ عوام میں بے چینی پھیلانے اور امن و امان کی صورت حال خراب کرنے والے عناصر کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
انہوں نے عوام سے کہا کہ سڑکیں، مارکٹیں بند ہونے یا لسانی تعصب کے حوالے سے ہونے والی افواہوں پر کان نہ دھریں اور صورت حال کو معمول پر رکھنے کے لیےپولیس سے تعاون کریں۔
مزید پڑھیں: سندھ میں لسانی جھگڑوں کے پیشِ نظر سیاسی رہنماؤں کی پُر امن رہنے کی اپیل
آئی جی سندھ نے ایس پی ہیڈکوارٹرز کی سربراہی میں حیدرآباد میں نسیم نگر واقعے کی تحیقیقات کے لیے ایک تفتیشی ٹیم بھی تشکیل دے دی ہے اور کہا کہ واقعے کی تفتیش غیرجانب دار اور شفاف ہوگی۔
اے آئی جی آپریشنز نے آئی جی کو پیش کردہ رپورٹ میں کہا کہ حیدرآباد واقعے کے نتیجے میں صوبے بھر سے مجموعی طور پر 15 ناخوش گوار واقعے رپورٹ ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اب تک 12 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں اور پورے صوبے سے 90 افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔
آئی جی غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ پولیس نے صوبے بھر میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب 12 جولائی کو حیدرآباد میں سپر سلاطین ہوٹل پر جھگڑے کے نتیجے میں ایک شہری 35 سالہ بلال کاکا کو لوہے کی سلاخوں سے بے دردی سے مارا گیا، مقتول کو نیو سعید آباد کے گاؤں فقیر محمد کاکا کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
جھگڑے میں بلال کاکا کے پانچ ساتھی زخمی ہو گئے تھے جس پر قوم پرست جماعتوں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا جن کا خیال تھا کہ حملہ آور افغان شہری تھے۔
واقعے کے بعد ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور گرفتار ملزم شاہ سوار پٹھان کو بھی لڑائی کے دوران چوٹیں آئی تھیں۔
اس واقعے کی ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شدید ردعمل سامنے آیا، ویڈیو میں جھگڑے کے وقت ایک پولیس موبائل اور چند پولیس اہلکاروں کو ہوٹل کے باہر دیکھا گیا اور فائرنگ کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔