17ویں صدی، بکھرتی مغل سلطنت اور نیکولاؤ منوچی (تیسرا حصہ)
اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے
اس حقیقت میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ مغلیہ دورِ حکومت کا مطالعہ کرنے کے لیے آپ کو بہت کتابیں مل جاتی ہیں، اور ملنی بھی چاہئیں کہ مغل دورِ حکومت نے ہند و سندھ کی تاریخ پر انتہائی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اس حوالے سے مطالعہ کرتے وقت یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مغلوں سے پہلے کون آیا اور مغلوں کے بعد کون آیا؟ مغلوں نے کیا دیا اور جو ان کے بعد آئے انہوں نے کیا چھینا؟
17ویں صدی اس حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے اور اس صدی میں جو سیاسی اُتھل پُتھل ہوئی اس کو باریک بینی سے سمجھنا انتہائی اہم ہے۔ ہمارا یہ سفر فروری 1628ء سے شروع ہوا ہے اور تقریباً 80 برس کے کمال و زوال کے راستوں سے چلتے ہوئے 1707ء کو اپنے اختتام کو پہنچے گا، اور اسی وقت آپ مناسب فیصلہ کرسکیں گے کہ چُوک کہاں کہاں ہوئی۔ تب اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو شاید آج ایسا نہ ہوتا۔
چلیے دہلی دربار میں چلتے ہیں جہاں میر جملہ کی آج کل کچھ زیادہ ہی آوت جاوت ہے اور ساتھ میں منوچی صاحب کا بھی زیادہ تر وقت دربار میں ہی کٹتا ہے۔ منوچی نے وہ لعل دیکھا تھا وہ ناریل کے برابر بڑا تھا۔ منوچی کے مطابق ’کچھ دنوں بعد دکن کے حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے شاہجہان نے فیصلہ کیا کہ ’معظم خان (میر جملہ) کے زیرِ کمان ایک جرار لشکر دکن روانہ کیا جائے۔ دارا اور بیگم صاحب یہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ ایسا کوئی بھی عمل ہو جس سے دکن میں بیٹھے ہوئے اورنگزیب کو سیاسی حوالے سے کوئی فائدہ پہنچے‘۔
معظم خان کو شاہجہان کی طرف سے اپنی سلطنت کا سپہ سالار بنانا، اعزاز دینا اور فوج دینا نہ اورنگزیب کے لیے اچھی خبر تھی اور نہ گولکنڈہ کے قطب شاہ کے لیے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اورنگزیب کسی ایسے لمحے کی تلاش میں تھا کہ وہ گولکنڈہ پر حملہ کرے۔ اب ایسے حالات میں جب میر جملہ سے دشمنی چل رہی تھی اور اورنگزیب کی گولکنڈہ کی دولت اور تخت پر جمی نظروں کا بھی اُسے پتا تھا۔
اس پیچیدہ صورتحال میں قطب شاہ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے، نہ جنگ کے لیے تیار اور نہ کوئی بھاگنے کا راستہ۔ ایسے میں اورنگزیب نے اپنے بیٹے شہزادہ محمد سلطان کو حکم دیا کہ وہ فوری گولکنڈہ پر دھاوا بول دے۔ اس اچانک حملے کا سن کر قطب شاہ نے خود کو قلعے میں بند کردیا اور شہزادے کو شہر پر قبضہ کرنے کی چھوٹ دے دی۔ مگر اس حملے کے حوالے سے تاریخ کے صفحات میں تنازعات کی اتنی دھول اُڑتی ہے کہ حقیقت کیا تھی وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ البتہ جنوری 1657ء میں جب دارالخلافہ میں طاعون کی بیماری پھیل رہی تھی تب گولکنڈہ کے اطراف میں یہ آنکھ مچولی اپنے عروج پر تھی۔
آخرکار قطب الملک شاہ نے حالات کا دباؤ نہ جھیلتے ہوئے شہزادے سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے باپ اورنگزیب سے صلح کی سفارش کرے تو وہ اس کے بدلے میں 40 لاکھ فوری ادا کرنے، اپنی بیٹی کا شہزادے سے نکاح کروانے اور جو سالانہ خراج مقرر کیا جائے گا اس کو مقررہ وقت پر ادا کرنے پر راضی ہوجائے گا۔
6 فروری 1657ء کو اورنگزیب خود گولکنڈہ پہنچا اور ایسا ماحول بنایا کہ وہ قطب شاہ سے بات چیت کرنے کے لیے راضی ہے۔ قطب شاہ کو اس شدید ذہنی تناؤ میں گزرتے شب و روز سے چھٹکارا چاہیے تھا، اور وہ جیسے بھی ملتا وہ اس کے ایک ایک لمحے کی قیمت دینے کے لیے تیار تھا اور اورنگزیب کی طرف سے بات کرنے کا اشارہ سمجھ کر اس نے اپنی بوڑھی ماں کو بات کرنے کے لیے بادشاہ کے پاس روانہ کیا۔ یہ طے ہوا کہ شہزادہ محمد سلطان کی شادی قطب شاہ کی لڑکی کے ساتھ ہوگی اور ایک کروڑ قیمت کے جواہرات، ہاتھی، قیمتی اشیا اور نقد رقم دینا بھی طے ہوا اور اس طرح اورنگزیب کو زیادہ کچھ تو نہیں مگر کچھ نہ کچھ ضرور ملا کہ اپنی ریاست اور بادشاہ بننے کے خواب کو سچا کرنے کے لیے جو ملے سو اچھا۔
اتنے میں دہلی میں شاہجہان کو خبر ملی کہ بیجاپور کے علی عادل شاہ کا انتقال ہوگیا اور ساتھ میں بادشاہ کو یہ بھی گوش گزار کیا گیا کہ ’عادل کے تخت کا کوئی حقیقی وارث نہیں، مگر سکندر جس کو، علی عادل نے بیٹا بنا کر پرورش کی تھی، امرا بیجاپور جو اکثر غلام ہیں، نے اس کو بادشاہ بنایا ہے وہ مجہول النسب تھا‘۔
آپ کچھ دیر سوچیں کہ، ہم کن مشکل ادوار کے گھنے سیاہ جنگلوں سے راستے بناکر یہاں پہنچے ہیں۔ گزرے زمانوں کے تخت و تاج کے مالکوں کے ذہنوں، سوچ اور خیالات کی اڑان کے آسمان کتنے مختصر تھے۔ بہرحال، بادشاہ نے اورنگزیب کو حکم دیا کہ خود بیجاپور جاکر اس ملک اور قلعے کو تصرف میں لائے۔ شاہجہان نے اس مہم میں معاونت کے لیے اپنے پاس سے معظم خان کو بھیجا۔
معظم خان بادشاہ سے رخصت ہوکر اپنی افواج کے ساتھ 13 فروری 1657ء کو اورنگ آباد پہنچا۔ 10 اپریل تک یعنی 27 روز کے محاصرے کے بعد بیدر کے شہری قلعے پر قبضہ ہوگیا اور ساتھ میں 10 لاکھ روپے نقد، 8 لاکھ روپے کا سرب و بارود و غلہ اور 230 توپیں ہاتھ آئیں۔ اس کے بعد قلعہ کلیانی کو اورنگزیب اور معظم خان نے اتوار 10 جون کو اپنے قبضے میں کرلیا۔ جب شاہجہان کو ان فتوحات کا پتا چلا تو معظم خان کو ولایت کرناٹک جس کی جمع 4 کروڑ دام تھی وہ انعام کے طور پر دی۔ معظم خان شاہجہان کے طرف سے تھا یعنی مرکز کا نمائندہ تھا۔ اس کا سیدھا یہ مطلب نکلتا ہے کہ معظم خان یقیناً اورنگزیب کو اچھا نہیں لگتا ہوگا۔ مگر مجبور تھا کہ کیا کرتا۔ دارالخلافہ میں سب سے زیادہ بیگم صاحب اور دارا کی چلتی تھی۔ ہم اس اہم موضوع پر ضرور بات کریں گے مگر دہلی کی ان گلیوں کے ذکر کے بعد جہاں جاڑوں کے آخری دنوں میں طاعون کا عفریت آدم بو کرتا پھرتا ہے۔
ہم ایک مختصر سا سفر، شاہجہان بادشاہ کے ساتھ کر لیتے ہیں جو اس کی صحت مند زندگی کا آخری سفر تھا۔ طاعون کی وجہ سے کچھ سانس کی ڈوریاں شاہی قلعے میں بھی ٹوٹیں۔ بادشاہ نے مناسب یہ سمجھا کہ کیوں نہ کچھ دنوں کے لیے تفریح اور کچھ شکار وغیرہ کرلیا جائے۔ تو 16 فروری 1657ء جمعہ کا دن تھا جب بادشاہ شاہجہان آباد سے کوہ شوالک کے دامن میں دریائے جمنا کے کنارے موضع مخلص پور کی طرف روانہ ہوا اور 12 مارچ کو مخلص پور پہنچا۔
گرمی کا موسم شروع ہوچکا تھا مگر وہاں یخ ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں۔ چونکہ بادشاہ کو وہ جگہ پسند آئی تھی تو اس پر فرض تھا کہ اس جگہ کا اصلی نام تبدیل کردے اور اپنی مرضی کا نام رکھے۔ یوں بادشاہ نے اس کا نام فیض آباد رکھا اور دوسرے آس پاس کے گاؤں ملا کر فیض آباد کو پرگنہ کردیا۔ نام تبدیل کرنے کا سب سے زیادہ شوق مغل بادشاہوں کا ہی رہا۔ ان کو پتا نہیں تھا کہ پرانے نام کی جگہ نیا نام رکھنے سے ان لوگوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی جو کئی نسلوں سے وہاں رہ رہے ہوتے ہیں۔ مگر اس روایت نے یہاں ایسی جڑیں پکڑیں کہ اب تک اس نامراد بیمار روایت سے جان چھڑانا مشکل ہوگیا ہے اور ہوا یہ ہے کہ سب سے زیادہ وہی نام تبدیل کیے گئے ہیں جو مغلوں نے تبدیل کرکے رکھے تھے۔ ظاہر ہے کہ وقت اپنے پروں پر فالتو قرض کا بوجھ کبھی نہیں رکھتا۔
بادشاہ نے وہاں خوب شکار کیا خاص کر کُونجوں کا۔ 17 اپریل کو فیض آباد سے کوچ کیا، 29 اپریل کو آغر آباد کے باغ میں آئے، ایک ہفتے کے بعد روانہ ہوئے اور 6 مئی کو وہ واپس دہلی پہنچے۔ تقریباً 2 ماہ 20 دن کا یہ شاندار سفر تھا۔ اگست میں قلعہ گلبرگہ جو حیدرآباد دکن سے 250 کلومیٹر پر تھا اس کے فتح ہونے کی خبر شاہجہان تک پہنچی۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔
بارشوں اور گرمیوں کے دن اپنے اختتام کو پہنچنے والے تھے کہ محمد صالح کمبوہ کی یہ تحریر ہمارے سامنے آتی ہے کہ ’ملک میں ہر طرف امن و امان تھا اور رعایا بڑے اطمینان سے زندگی کے شب و روز گزار رہی تھی کہ یکدم فلک کج رفتار نے رنگ بدلا۔ اچانک 16 ستمبر 1657ء کو بادشاہ کی طبیعت ناساز ہو گئی، دونوں اخراج اچانک بند ہوگئے‘۔
اس بیماری پر منوچی شاید زیادہ افسردہ نہیں تھا کہ اسے بغیر کسی جھجھک کے بات کرنا شاید اچھا لگتا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’جب یہ واقعہ ہوا میں تو دربار دہلی میں تھا اور ان دنوں شہزادہ دارا کی خدمت میں تھا۔ اس بیماری کو شاہجہان نے خود دعوت دے کر بلایا تھا، کیونکہ وہ 62 سال کا بوڑھا تھا تاہم نوجوانوں کی طرح لطف اٹھانا چاہتا تھا، مقوی باہ ادویات کا یہ نتیجہ نکلنا ہی تھا‘۔
مولانا ذکا اللہ تحریر کرتے ہیں کہ ’شاہجہان آباد میں اوّل بادشاہ کا پیشاب بند ہوا، پھر مواد دموی کی زیادتی کی وجہ سے اعضا اسفل میں ورم ہوا، علاج سے فائدہ نہ ہوا۔ امراض نے ایسا زور پکڑا کہ 7 دن تک ایک دانہ تک نہ کھایا۔ ان دنوں فقط دارا شکوہ اور طبیب بادشاہ سے مل سکتے تھے۔ پھر شوربہ پینے اور شیر خشت سے کچھ افاقہ ہوا‘۔ شاہجہان کے پاس واپس آتے ہیں کہ جنوری 1666ء تک بادشاہ کو بہت کچھ برداشت کرنا تھا۔
اب ہندوستان کی بچھی بادشاہت کی بساط پر 8 مہروں کا کھیل تھا۔ یہ مہرے شاہجہان اور اس کی اپنی اولاد تھی۔ ملا محمد صالح کمبوہ لکھتے ہیں کہ ’ممتاز محل نے 14 اولادوں کو جنم دیا، جن میں سے 4 شہزادے اور 3 شہزادیاں آپ کے سامنے فوت ہوئیں، 4 شہزادے اور 3 شہزادیاں اپنے پیچھے چھوڑیں جن کے نام یہ ہیں، جہاں آرا بیگم (جنم: 12 اپریل 1614ء)، محمد دارا شکوہ (جنم: 30 مارچ 1615ء)، شاہ شجاع (جنم: 3 جولائی 1616ء)، روشن آرا بیگم (جنم: 2 ستمبر 1617ء)، اورنگزیب (جنم: 3 نومبر 1618ء)، مراد بخش (جنم: 8 اکتوبر 1624ء) اور گوہر آرا بیگم (جنم: 17 جون 1631ء)۔ ممتاز محل کے انتقال 17 جون1631ء کے وقت اس کی عمر 38 برس 2 ماہ تھی'۔ 4 بیٹے اور 3 بیٹیاں جن کا کبھی آپس میں بہن بھائیوں والی محبت کا رشتہ نہ پنپ سکا۔ وہ آمنے سامنے ملتے تو ایک دوسرے کے دوست ہوتے، مگر جیسے الگ ہوتے تو ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے۔
شاہجہان اور ممتاز محل کے 4 بیٹوں اور 3 بیٹیوں میں بڑی بیٹی جہاں آرا بیگم، دارا شکوہ کی طرف دار تھی اور شاہجہان ان دونوں کو بہت چاہتا تھا۔ اس کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ جہاں آرا اور دارا کی کہی ہوئی کسی بات سے انکار نہ کرے اور وہ جو کرنا چاہتے تھے وہ ان کو انکار نہیں کرتا تھا۔ دوسری روشن آرا بیگم تھی وہ شاہ شجاع اور اورنگزیب کی طرف دار تھی۔ سب سے چھوٹی بیٹی گوہر آرا بیگم سب سے چھوٹے بھائی مراد بخش کی طرف دار تھی۔ نہ ان بھائیوں کی آپس میں بنتی تھی اور نہ ان بہنوں کی آپس میں بنی، یہ بہن بھائی جب بھی ملے دشمن ہو کر ہی ملے۔ مغلیہ سلطنت پر ایسا اور اس طرح کا مشکل وقت شاید پہلے نہیں آیا تھا۔ سلطنت ان کے ہاتھ میں تھی جن کو فقط اپنی انا کی تسکین چاہیے تھی۔ ہم مختصراً ان بہن بھائیوں کا تعارف پڑھ لیں جو تاریخ کی اہم کتابوں سے اخذ کیا گیا ہے تو ہمیں، مغلیہ سلطنت کی ڈوبتی کشتی کے اسباب سمجھنے میں آسانی رہے گی۔
بیگم صاحب
ان میں سب سے بڑی ’بیگم صاحب‘ تھیں، منوچی تحریر کرتا ہے کہ ’شاہجہان اپنی بڑی بیٹی بیگم صاحب سے حد سے زیادہ محبت کرتا تھا۔ وہ بہت خوبصورت، عقلمند، فیاض، کشادہ دل اور مخیر تھی، تمام لوگ اسے پیار سے دیکھتے تھے، وہ بڑی شان و شوکت سے رہتی تھی۔ اس شہزادی کو بندرگاہ سورت کی آمدنی جو 30 لاکھ سے زیادہ تھی وہ پان خرچ کے لیے دے رکھے تھے۔ اس کے سوا اپنے باپ کے دیے ہوئے بہت سے قیمتی جواہرات تھے۔ یہ دارا کی طرف دار تھی اور ہمیشہ اس فکر میں رہتی تھی کہ دربار کے امرا اس کے مخالفین سے نہ مل جائیں۔ بیگم صاحب نے اس بات کی بڑی کوشش کی کہ تخت کا وارث دارا ہو۔ وہ ہمیشہ بڑی محبت اور چاہ سے اپنے باپ کی خدمت کرتی تھی۔ ایسا مشکل سے ہی ہوا کہ بیگم صاحب کوئی بات کرے اور شاہجہان انکار کردے۔ جس رات ممتاز محل کی گوہر آرا بیگم کو جنم دینے کے بعد سانسیں اکھڑنے لگی تھیں تب بھی جہاں آرا بیگم اس کے پاس موجود تھیں اور جیسے جیسے حالت غیر ہوتی گئی، جہاں آرا بیگم نے فوراً دارا شکوہ کے ذریعہ شاہجہان کو اطلاع کروائی اور جب شاہجہان پہنچا تو ممتاز محل نے اولاد اور والدین سے اچھے برتاؤ کا کہہ کر آنکھیں موند لیں'۔
شہزادی کا محل قلعے سے باہر تھا، جس وقت بیگم صاحب محل سے دربار جاتی تھی تو ایک شاندار جلوس میں جاتی تھیں، چونکہ منوچی نے وہ جلوس دیکھا تھا اس لیے جلوس کی اس نے بڑی شاندار عکاسی کی ہے۔
وہ لکھتا ہے کہ ’جس وقت بیگم صاحب محل سے دربار کو جاتی ہیں تو بڑی شان و شوکت سے اور بہت سے سوار اور پیادے نیز خواجہ سرا جلوس میں لیے ہوئے چلتی ہیں۔ خواجہ سرا ان کے چاروں طرف گھیرا ڈالے ہوتے ہیں، جس کسی کو سامنے دیکھیں دھکیل دیتے اور کسی شخص کی کوئی عزت نہیں سمجھتے، بلکہ چلتے ہوئے ’ہٹو‘، ’بچو‘ کا نعرہ بلند کیے جاتے ہیں۔ تمام شہزادیاں اسی طرح کرتی ہیں اور اسی وجہ سے جو شخص انہیں آتے دیکھتا ہے جلدی سے راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہوجاتا ہے۔ شہزادی کی سواری بہت آہستہ آہستہ چلتی ہے۔ آگے آگے بہشتی سڑک پر پانی چھڑکتے جاتے ہیں تاکہ گرد نہ اُڑے۔ شہزادیاں ایک پالکی میں سوار ہوتی ہیں، پالکی کے گرد خواجہ سرا مور چھل سے مکھیاں اُڑاتے جاتے ہیں۔ پالکی کے ساتھ کئی خوشبوئیں ہوتی ہیں۔ اگر راستے میں کوئی امیر اپنے آدمیوں سمیت آ رہا ہو تو جب وہ شہزادی کی سواری دیکھتا ہے تو راستے سے ہٹ کر اور گھوڑے سے اتر کر، دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے 200 قدم کے فاصل پر کھڑا ہوجاتا ہے۔ بیگم صاحب نے اپنے یادگار کے طور پر قلعے اور شہر کے درمیانی میدان میں ایک سرائے کی تعمیر کا حکم دیا، یہ سرائے ہندوستان بھر میں مشہور ہے اور سب سے خوبصورت ہے۔ اس کی اوپر والی کوٹھڑیوں پر نقش و نگار کا شاندار کام کیا ہوا ہے اور ساتھ میں شاندار باغیچہ بھی ہے۔ اسے دیکھنے خود شاہجہان آئے تھے‘۔
دارا شکوہ
دارا شکوہ (جنم 20 مارچ 1615ء) شاہجہان کا بڑا بیٹا تھا۔ یہ شخص بارعب، خوبصورت، خوش باش، خوش اخلاق، شائستہ زبان، مہربان اور فیاض واقع ہوا تھا مگر اپنے خیالات سے متعلق وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ جو سوچتا ہے وہ مکمل ہے اور اس میں کسی اور کے شریک ہونے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ ناصح لوگوں سے نفرت کرتا۔ بس یہی وجہ تھی کہ اس کے پیارے سے پیارے دوست بھی ضروری سے ضروری معاملات میں اپنی رائے دینے کی جرأت نہیں کر پاتے تھے۔ ایک اور خوش فہمی نے اس کے دماغ میں جڑیں پکڑلی تھیں کہ اس کی قسمت زوروں پر ہے۔ وہ ایک عام شہزادہ نہیں تھا بلکہ ایک علم سے چاہ رکھنے والا اور تصنیفات کا مالک تھا۔ وہ سب مذاہب کا احترام کرتا تھا۔ وہ سرمد کو بھی بڑا پسند کرتا تھا۔
منوچی لکھتا ہے کہ ’میرے وقت میں 3 پادری دربار میں تھے۔ ایک تو اسٹینیلا میلپیکا تھا، یہ فرانسیسی تھا، دوسرا پیڈرو جزارٹی پُرتگیزی تھا اور تیسرا ہینریک بزو فلیمنڈ تھا۔ دارا کو نجومیوں پر بڑا اعتقاد تھا اور نامور نجومی اس کے دربار میں تھے جن میں سب سے بڑا بھوانی داس بھی تھا جو میرا بھی دوست تھا۔ وہ اکثر میرے گھر آتا اور ہم ساتھ مل کر الکوحل پیتے۔ ایک دفعہ اس نجومی نے شہزادے کو لکھ کر دیا کہ ’بلا شک و شبہ آپ بادشاہ بن جائیں گے اور اگر میرا کہا درست ثابت نہ ہوا تو میں اپنا سر حضور کے قدموں میں نچھاور کرنے کو تیار ہوں‘۔ کاش کہ اسے کوئی بتا دیتا کہ عمل کے ہل کے سوا نصیبوں کی سوکھی زمین پر کامیابی کی فصلیں کبھی نہیں اگتیں۔
شاہجہان دارا سے بڑی محبت کرتا تھا، یہاں تک کہ شاہجہان نے اپنے تمام امرا کو حکم دیا تھا کہ صبح کا پہلا سلام دارا کو دیا کریں پھر شاہی حضور میں حاضر ہوا کریں۔ دربار میں کئی مواقعوں پر بادشاہ نے کہا تھا کہ، میں دارا کو اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتا ہوں، اور جس طرح بھی بنے گا اسے بادشاہ بنانے کی کوشش کروں گا۔ یہ بھی کچھ اسباب تھے جنہوں نے دارا کو مغرور بنادیا تھا اور دارا ہمیشہ امرا سے زبانی نیز عملی طور پر سختی کا برتاؤ کرتا۔
رام پرساد ترپاٹھی، دارا کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ ’وہ جتنا باپ کی نظروں میں عزیز تھا اتنا ہی عوام کی نظروں میں بھی عزیز تھا، حکومت کے اہم مسائل اور انتظامی دشواریوں سے متعلق اس کے تجربات کافی وسیع تھے۔ کیونکہ اس نے شہنشاہ کے نائب کی حیثیت سے کام کیا اور اس دوران بہت سے امور اس کے ہاتھوں انجام پائے۔ البتہ ایک حقیقت ضرور تھی کہ دوسری علمی ادبی مصروفیتوں کی وجہ سے فوجی تربیت سے دُور رہا اور فن شمشیر زنی اور ڈسپلن سے محروم رہا۔ یہ چیزیں تخت کے دعوے دار کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہیں کیونکہ مروجہ قانون کے مطابق شمشیر ہی جانشین کا قطعی فیصلہ کرسکتی ہے‘۔
مولوی ذکا اللہ تحریر کرتے ہیں کہ ’دارا دل کا شجاع اور ہاتھ کا سخی و طبیعت کا آزاد تھا۔ مذہبی حوالے سے اپنے پر دادا اکبر کے مدرسے کا طالب علم تھا، ہندو مسلمان کو متحد کرنا چاہتا تھا۔ مطالعہ وہ سارے مذاہب کا کرتا۔ دلی اور بنارس سے پنڈت بلوا کر وید کے اُپنشید کا ترجمہ فارسی زبان میں کروایا جو جون 1657ء میں مکمل ہوا۔ وہ تصوف کی کچھ کتابوں کا مصنف بھی تھا۔ سب ٹھیک تھا، زبان شیریں تھی مگر کلام میں ایک قسم کا غرور اور گھمنڈ ایسا رکھتا تھا کہ لوگ اس سے مانوس کم ہوتے تھے‘۔
شاہ شجاع
شاہجہان کا دوسرا بیٹا شاہ شجاع (جنم: جون 1616ء) تھا۔ منوچی کے مطابق ’یہ مغرور اور اپنی شجاعت، مستقل مزاجی اور عقلمندی کے لیے مشہور تھا اور وہ کام دینے والے دوستوں کو گانٹھنا خوب جانتا تھا۔ بنگال میں اس کے کئی ایک دوست تھے جو انعام و اکرام اور تنخواہ دوگنی کردینے کے وعدے دے دے کر دارا کے دربار سے اعلیٰ درجے کے سپاہی اور توپچی بہکاتے رہتے تھے۔ شجاع کی دارا کے دوست جسونت سنگھ کے ساتھ بھی بڑی دوستی تھی۔ نیز حرم میں اس کی بہن روشن آرا بیگم اس کے حق میں تھی اور اس کو پل پل کی خبریں پہنچاتی رہتی تھیں۔ یہ ایک مغرور اور جلد غصہ میں آجانے والی شہزادی تھی، وہ اپنے آپ کو بہت ذہین سمجھتی تھی۔ حاسد تھی فیاض نہیں تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شکل کی بھی بس نام کی ہی تھی۔ شاہ شجاع میں اس کے باپ کی بہت ساری عادات تھیں، اس کے ذہن میں یہ تھا کہ وہ بہت بہادر ہے اور اکیلا ہی سب فتح کرسکتا ہے۔ وہ اکثر ضروری کاموں میں غفلت کردیتا تھا۔ یہ شخص اپنے باپ کے خلاف علم بغاوت کھڑا کرنے میں سب سے اوّل تھا‘۔
منوچی طنزیہ طور پر ان باپ بیٹوں سے متعلق ایک حقیقی واقعہ ہمیں سناتا ہے جو یقیناً آپ کو بھی سننا چاہیے اور سننے کے بعد سوچیے گا ضرور کہ مغلیہ سلطنت کی حیاتی اتنی مختصر کیوں تھی۔
منوچی لکھتا ہے کہ ’مغلیہ سلطنت میں بغاوت سے چند برس پہلے جن دنوں شہزادہ شجاع سلطنت بنگالہ پر حکومت اور راج محل کے شہر میں دربار کیا کرتا تھا، وہاں ایک عجیب واقعہ ہوا جس سے متعلق اس نے بادشاہ شاہجہان کو خط بھیجا کہ ’صبح 8 بجے شہر کے نزدیک ہی ایک ڈیڑھ فرسنگ چوڑے میدان میں بے انتہا چھوٹے اور بڑے سانپ نظر آئے اور دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سمندر میں لہریں اٹھ رہی ہیں۔ خوفزدہ ہوکر لوگ مکانوں کی چھتوں اور درختوں کی چوٹیوں پر جا چڑھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک بھاری بڑے سانپ کے سر پر ایک چھوٹا سا بالکل سفید سانپ سوار تھا۔ پھر سانپوں کا لشکر گم ہوگیا۔‘
یہ سن کر شاہجہان نے نجومیوں کو بلا کر اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ سلطنت کی بدبختی خارج ہو رہی ہے اور حضور عرصے تک بہ اقبال و دولت زندہ رہیں گے۔ یہاں شاہ شجاع نے بھی نجومیوں سے دریافت کیا تو انہوں نے تعبیر کچھ یوں کی کہ سلطنت میں ایک بغاوت اٹھے گی اور حضور بادشاہ بنیں گے، چھوٹا سا سانپ جو بڑے سانپ کے سر پر سوار تھا وہ سانپوں کا بادشاہ تھا جس کی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا اور اپنی پُرانی سلطنت چھوڑ کر جا رہا ہے'۔
یہ چاہے حقیقت ہو یا نہ ہو یا کسی کا رچا سوانگ ہو۔ مگر سارا کھیل نفسیاتی حربوں کا ہوتا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ خوش فہمیوں کے باغ بادشاہ ہی لگاتے ہیں۔ ان کو دھوکے میں رکھنا درباریوں کے لیے دائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ اس واقعے نے شاہ شجاع میں ایک طاقت بھر دی اور اسے یقین ہوگیا کہ آنے والے وقتوں میں تخت و تاج کا مالک وہی بننے والا ہے۔
ابھی شاہجہان کے 2 بیٹوں اور ایک بیٹی کا تعارف آپ سے کروانا باقی ہے کہ وہاں بھی ہر کوئی یہی سمجھ رہا ہے کہ آنے والا تخت کا مالک وہ ہوگا یا اس کی مرضی سے ہوگا۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ایک جنگل میں 2 شیر اور ایک میان میں 2 تلواریں ساتھ نہیں رہ سکتیں اس لیے باقی سب کو مٹنا ہوگا کہ تخت اور تاج میں ایک سر رکھنے کی ہی گنجائش ہوتی ہے۔
حوالہ جات
- ’تاریخ ہندوستان‘ ۔ مولوی محمد ذکا اللہ۔2010ء۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
- ’برنیئر کا سفرنامہ ہند‘۔ ڈاکٹر فرانس برنیئر۔ 2002ء۔ تخلیقات، لاہور
- ’کمپنی کی حکومت‘۔ باری علیگ۔2020ء۔ لاہور بک سٹی، لاہور
- ’ہندوستان عہد مُغلیہ میں‘۔ نیکولاؤ منوچی۔ ملک راج شرما۔ لاہور
- ’مغلیہ سلطنت کا عروج و زوال‘۔ رام پرساد ترپاٹھی۔2018ء۔ کتاب میلہ، لاہور
- ’شاہجہان نامہ‘۔ ملا محمد صالح کمبوہ۔ 2013ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔