کاروبار

'ٹیکس پالیسیز، اسٹیٹ بینک قوانین آئی ٹی کی برآمدات میں رکاوٹ ہیں'

آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کو ٹیکس مراعات سمیت دیگر سہولیات نہیں دی گئیں تو انڈسٹری بند ہونے کے خطرات ہیں، سید امین الحق

وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات سید امین الحق نے کہا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی پالیسیز اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کچھ قوانین (انفارمیشن ٹیکنالوجی) آئی ٹی کی برآمدات کی ترقی میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹیکس سمیت ان شرائط میں نرمی کی جائے۔

وفاقی وزیر جو پالیسی کمیٹی اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ فنڈ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے کہا کہ آئی ٹی برآمدات، فری لانسرز اور برآمدی ترسیلات زر میں اضافے میں ایف بی آر کی پالیسیوں نے رکاوٹ پیدا کی ہے، جس کی وجہ سے سافٹ وئیر کمپنیاں اور فری لانسرز اپنے کاروبار کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس کے نفاذ سمیت سخت شرائط میں نرمی کی ضرورت ہے، آئی ٹی انڈسٹری، فری لانسرز کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کریں۔

انہوں نے کہا کہ اگر آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کو ٹیکس مراعات سمیت دیگر سہولیات نہیں دی گئیں تو انڈسٹری کے جلد بند ہونے کے خطرات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ٹی سیکٹر میں پاکستان رواں سال کی برآمدات کے ہدف سے پیچھے رہ جائے گا، پاشا

امین الحق نے مزید کہا کہ ملک آئی ٹی کی برآمدات سے خاطر خواہ زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے۔

اجلاس نے وزارت آئی ٹی کے ذیلی ادارے یونیورسل سروس فنڈ (یو ایس ایف) کے لیے اصولی طور پر مالی سال 23-2022 کےلیے 32.13 ارب روپے کا بجٹ منظور کر لیا ہے جبکہ نیشنل ٹیکنالوجی فنڈ کے لیے بھی 3 ارب 75 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے۔

یو ایس ایف کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر حارث محمود چوہدری اور نیشنل ٹیکنالوجی فنڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر عاصم شہریار نے اجلاس کو اپنے ادراوں کی کارکردگی اور بجٹ میں رقم مختص کرنے کے حوالے سے تفصیلات بتائیں۔

خیال رہے کہ ڈان کی 5 جون کی رپورٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) انڈسٹری نے کہا تھا کہ رواں مالی سال پاکستان آئی ٹی سیکٹر میں برآمدات کے ہدف سے ایک ارب ڈالر پیچھے رہ جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: خدمات کی برآمدات میں جولائی تا مارچ 17 فیصد اضافہ

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن فار آئی ٹی اور آئی ٹیز (پاشا) کی جانب سے ’وائے پلینڈ گروتھ واس ناٹ اچیو‘ (ترقی کا ہدف کیوں حاصل نہیں ہوا) کے نام سے مرتب کردہ رپورٹ کو حتمی شکل دے دی گئی۔

رپورٹ میں آئی ٹی کی بڑھتی ہوئی ترقی رکنے کی 5 وجوہات بتائی گئی ہیں جن میں خصوصی ٹیکنالوجی زون اتھارٹی (ایس ٹی زی اے) کا قیام بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’گزشتہ سال کے مقابلے اس سال صرف ایک تبدیلی ہوئی ہے اور وہ ٹیکس نظام میں ہونے والی تبدیلی ہے‘۔

پاشا کی جانب سے کمی کے رجحان کی وجہ ٹیکس نظام میں تبدیلی بتائی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان آئی ٹی کا ابھرتا مرکز، سالانہ 25 ہزار آئی ٹی گریجویٹس نکلنے لگے

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ٹیکس سے استثنیٰ آئی ٹی کی صنعت کے لیے واحد مراعات تھی جس کے تحت 2025 تک ٹیکس میں چھوٹ کا وعدہ کیا گیا تھا۔

2021 میں اسے صنعت اور آئی ٹی کی وزارتوں سے مشورہ کیے بغیر ٹیکس کریڈٹ کے متنازع نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 21-2020 کے دوران آئی ٹی کی ترقی کی شرح 47 فیصد تھی اور اگر اسی رجحان کی پیروی جاری رہتی تو آئی ٹی صنعت رواں مالی سال میں ساڑھے 3 ارب ڈالر کا ہدف عبور کرتی۔

گزشتہ مالی سال میں آئی ٹی اور آئی ٹیز کی برآمدات 2 ارب 10 کروڑ ڈالر تھی، جس کے بعد مالی سال 22-2021 کے لیے ساڑھے 3 ارب ڈالر کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، تاہم صنعت نے تخمینہ لگایا ہے کہ 30 جون 2022 تک برآمدات 2 ارب 60 کروڑ ڈالر تک محدود رہے گی۔

سینٹریلائزڈ ڈی این ایس کنٹرول لاگو نہیں کیا گیا، پی ٹی اے کی وضاحت

فلسطینی لکھاری کی دعوت منسوخ: محمد حنیف کا جرمن کانفرنس میں شرکت سے انکار

دفاعی بجٹ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے بتدریج پارلیمنٹ میں لایاجائے، سینیٹر رضا ربانی