دنیا

برطانیہ نے جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی

اس کیس میں برطانوی عدالتوں نے یہ نہیں پایا کہ جولین اسانج کی حوالگی جابرانہ، غیر منصفانہ اور استحصالی عمل ہوگا، وزارت داخلہ

برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو امریکا کے حوالے سے کرنے کی منظوری دے دی جہاں وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق جولین اسانج امریکا کو 18 الزامات میں مطلوب ہیں جس میں امریکی فوج کے خفیہ ریکارڈ اور سفارتی کیبلز کی بڑی تعداد کو ’وکی لیکس‘ کے ذریعے جاری کرنے پر جاسوسی کا الزام بھی شامل ہے۔

واشنگٹن کہتا ہے کہ ان خفیہ دستاویزات کے سامنے آنے سے کئی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں:برطانیہ: عدالت نے وکی لیکس کے بانی کو امریکا کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی

جولین اسانج کے حمایتیوں نے ان کی امریکا کو حوالگی چیلنج کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

رواں برس جولین اسانج سے شادی کرنے والی ان کی اہلیہ نے کہا کہ ’یہ آزادی صحافت اور برطانوی جمہوریت کے لیے سیاہ دن ہے، ہم بند گلی میں نہیں کھڑے بلکہ اس کے خلاف لڑیں گے اور اپیل کا ہر فورم استعمال کریں گے‘۔

ان کی وکیل جین روبن سن نے امریکی صدر جوبائیڈن پر زور دیا کہ جولین اسانج کے خلاف الزامات واپس لیے جائیں اور آسٹریلوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے مؤکل کو رہا کیا جائے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ’ہم برطانوی عدالت میں اپیل کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو یورپی عدالت برائے انسانی حقوق بھی جائیں گے‘۔

برطانوی وزارت داخلہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اس کیس میں برطانوی عدالتوں نے یہ نہیں پایا کہ جولین اسانج کی حوالگی جابرانہ، غیر منصفانہ اور استحصالی عمل ہوگا‘۔

مزید پڑھیں: برطانوی جج نے جولین اسانج کی حوالگی کی امریکی درخواست مسترد کردی

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’نہ ہی یہ معلوم ہوا کہ ان کی حوالگی ان کے انسانی حقوق، منصفانہ ٹرائل یا آزادی اظہارِ رائے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی اور امریکا میں ان کے ساتھ مناسب سلوک کیا جائے گا بشمول ان کی صحت کا خیال رکھنے کے‘۔

قبل ازیں ایک برطانوی جج نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ جولین اسانج کو ملک بدر نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ ان کی ذہنی صحت ایسی ہے کہ اگر انہیں سزا سنائی گئی اور سخت سیکیورٹی والی جیل میں رکھا گیا تو وہ خود کشی کے خطرے سے دوچار ہوں گے۔

تاہم امریکا نے اس کے خلاف اپیل کی تھی اور متعدد ضمانتیں دی تھیں جس میں یہ بھی شامل تھا کہ انہیں سزا پوری کرنے کے لیے آسٹریلیا منتقل کردیا جائے گا، جس کے بعد جج کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

پریتی پٹیل کے فیصلے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دہائی سے جاری آسٹریلوی نژاد جولین اسانج کی قانونی جنگ ختم ہوگئی، بلکہ یہ مزید کچھ ماہ جاری رہ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کی عدالت کا جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کا حکم

وہ لندن کی ہائی کورٹ میں اپیل کرسکتے ہیں جو چیلنج کرنے پر اپنی منظوری دی گے اس کے بعد وہ برطانوی سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرسکتے ہیں لیکن اگر اپیل مسترد ہوگئی تو انہیں 28 روز کے اندر امریکا کے حوالے کردیا جائے گا۔

وکی لیکس کیا تھا؟

خیال رہے کہ وکی لیکس سب سے پہلے اس وقت منظر عام پر آیا جب اس نے 2010 میں امریکی فوج کی 2007 کی ایک ویڈیو شائع کی تھی جس میں دیکھا گیا تھا کہ بغداد میں اپاچی ہیلی کاپٹروں کے حملے میں رائٹرز کے دو نیوز اسٹاف سمیت ایک درجن افراد ہلاک ہوئے۔

اس کے بعد اس نے سیکڑوں ہزاروں خفیہ فائلیں اور سفارتی کیبلز جاری کیں جو امریکی فوجی تاریخ میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی سیکیورٹی کی خلاف ورزی تھی۔

امریکی پراسیکیوٹرز اور مغربی سیکیورٹی حکام جولین اسانج کو ریاست کا ایک خطرناک دشمن سمجھتے ہیں جن کے لیک کردہ مواد میں نامزد ایجنٹوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔

البتہ جولین اسانج اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اقتدار میں رہنے والوں کو شرمندہ کرنے کی سزا دی جا رہی ہے اور اگر جرم ثابت ہو گیا تو انہیں 175 سال قید کا سامنا کرنا پڑے گا، حالانکہ امریکی وکلا نے کہا ہے کہ سزا 4 سے 6 سال کے برابر ہو گی۔

مزید پڑھیں: جولین اسانج کا خود کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل اگنیس کیلامارڈ نے کہا کہ ’جولین اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کی اجازت دینا اسے بہت زیادہ خطرے میں ڈال دے گا اور دنیا بھر کے صحافیوں کو ایک خطرناک پیغام دے گا۔‘

یہ قانونی جنگ 2010 کے آخر میں شروع ہوئی جب سوئیڈن نے جنسی جرائم کے الزامات پر برطانیہ سے جولین اسانج کی حوالگی کا مطالبہ کیا، جب وہ 2012 میں یہ مقدمہ ہار گئے تو لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے لی جہاں انہوں نے 7 سال گزارے۔

بالآخر اپریل 2019 میں انہیں گھسیٹ کر نکالا گیا تو انہیں برطانوی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر جیل بھیج دیا گیا حالانکہ ان کے خلاف سوئیڈش مقدمہ خارج ہوچکا تھا، وہ جون 2019 سے امریکا کو حوالگی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور اب بھی جیل میں ہیں۔

ایکواڈور کے سفارت خانے میں قیام کے دوران ان کی ساتھی سے 2 بچے پیدا ہوئے جس سے انہوں نے رواں برس مارچ میں لندن کی بیلمارش ہائی سیکیورٹی جیل میں ایک تقریب میں شادی کی جس میں صرف چار مہمانوں، دو سرکاری گواہوں اور دو محافظوں نے شرکت کی۔

سری لنکا: پیٹرول کی قلت کے سبب اسکول، دفاتر دو ہفتے بند رکھنے کا اعلان

پنجاب اسمبلی کے علیحدہ اجلاس نے بجٹ کی قانونی حیثیت کو مشکوک بنا دیا

بھارت کے ساتھ تعلقات کی پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی، دفتر خارجہ کی بلاول بھٹو کے بیان پر وضاحت