پاکستان

سی پیک کے تحت توانائی معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کا مطالبہ نہیں کیا، آئی ایم ایف

دعوے غلط ہیں، آئی ایم ایف توانائی کے شعبے کی عملداری کی بحالی کیلئے کثیرالجہتی حکمت عملی کی حمایت کرتا ہے، ایستھر پیریز روئیز
|

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے واضح کیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت کیے گئے توانائی کے معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرنے کے لیے نہیں کہا۔

ایستھر پیریز روئیز کی جانب سے یہ وضاحت ان کے ایک بیان میں دی گئی ہے جس میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ ردعمل کس بات کے جواب میں تھا۔

گزشتہ ہفتے ’ایکسپریس ٹریبیون‘ میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ چینی پاور پلانٹس کو تقریباً 300 ارب روپے کی ادائیگیوں سے قبل سی پیک کے تحت کیے گئے توانائی کے معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرے۔

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ ’آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ سی پیک پاور پلانٹس کے لیے 1994 اور 2002 کی پاور پالیسیوں کے تحت قائم کیے گئے پاور پلانٹس کے مساوی حکمت عملی اپنائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف کی 2022 میں پاکستان کی حقیقی شرح نمو 4 فیصد رہنے کی پیش گوئی

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے مزید بتایا گیا تھا کہ ’آئی ایم ایف کو شبہ ہے کہ چینی آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پلانٹس) پاکستان سے زیادہ ادائیگی وصول کر رہے ہیں اور ان معاہدوں کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے‘۔

مزید برآں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزارت خزانہ کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ آئی ایم ایف نے معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کیے بغیر فروری میں چینی آئی پی پیز کو 50 ارب روپے دینے پر بھی اعتراض کیا۔

رپورٹ میں ایستھر پیریز روئیز کا تبصرہ بھی شامل تھا جس میں کہا گیا کہ ایستھر پیریز روئیز نے محدود مالی دائرہ کار کے سبب پاور سیکٹر کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مساوی سلوک کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

رپورٹ میں آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان سے سی پیک کے توانائی معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کے بارے میں ایستھر پیریز روئیز کی جانب سے فوری طور پر کوئی تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی تھی، تاہم انہوں نے گزشتہ روز جاری کردہ اپنے بیان میں اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے واضح طور پر غلط قرار دیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے سی پیک قرضوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا، آئی ایم ایف

ایستھر پیریز روئیز کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’آئی ایم ایف نے پاکستان سے سی پیک کے آئی پی پی معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کے لیے نہیں کہا، یہ دعوے بالکل غلط ہیں، اس کے برعکس آئی ایم ایف توانائی کے شعبے کی عملداری کو بحال کرنے کے لیے حکومت کی کثیرالجہتی حکمت عملی کی حمایت کرتا ہے جس کے تحت حکومت، پاور پروڈیوسرز اور صارفین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز پر عملداری کی بحالی کا بوجھ تقسیم ہوتا ہے‘۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت اپریل سے تعطل کا شکار 6 ارب ڈالر کے قرضے کی سہولت کو دوبارہ شروع کرنے کی امید میں آئی ایم ایف کے مطالبات کی تعمیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

نئی مخلوط حکومت اور بین الاقوامی قرض دہندہ کے درمیان مذاکرات بے نتیجہ رہ جانے کے سبب آئی ایم ایف کی قرض کی سہولت کو روک دیا گیا تھا۔

اس سے قبل آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی ایندھن اور توانائی کی سبسڈی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اب نئی حکومت کے آئندہ مالی سال کے لیے مقرر کردہ اہداف پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے حکومت نے مزید اقدامات اٹھاتے ہوئے گزشتہ روز ایندھن پر سبسڈی کو مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے ایندھن کی قیمتوں میں 29 فیصد تک اضافہ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے قرض کی چھٹی قسط کی منظوری دے دی، شوکت ترین

گزشتہ شب پریس کانفرنس کے دوران وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے تقریباً 20 روز میں تیسری بار پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا، انہوں نے کہا کہ تمام مصنوعات کی قیمتوں کو اب ان کی قیمت خرید پر لے آئے ہیں اور سبسڈی یا قیمت کے فرق کے دعوے کو ختم کردیا گیا ہے۔

قبل ازیں مئی کے اوائل میں انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے طے شدہ معاہدے کے تحت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے تمام وعدوں کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

تاہم انہوں نے مزید کہا تھا کہ انہوں نے سی پیک کو روکنے کے جو وعدے کیے تھے ان پر قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں، وزیر خزانہ نے ان وعدوں کی مزید وضاحت نہیں کی جن کا وہ سی پیک کے حوالے سے ذکر کر رہے تھے۔

’آئی ایم ایف معاہدے کے باعث ایندھن کی قیمتیں بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا‘

'اب ہماری نجی زندگی بھی برائے فروخت ہے'

روس پر گیس کا انحصار کم کرنے کیلئے یورپی کمیشن کا مصر، اسرائیل سے معاہدہ