آئی ایم ایف کو راضی کرنے کیلئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو دیا گیا ٹیکس ریلیف واپس
حکومت نے اپنے مجوزہ وفاقی بجٹ برائے 23-2022 میں تنخواہ دار طبقے کو فراہم کیا گیا ٹیکس ریلیف واپس لینے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں پیش کیے گئے بجٹ میں حکومت نے غیر متوقع طور پر زیادہ تنخواہوں والے افراد کو ٹیکس کی شرح کے لحاظ سے بڑا ریلیف دیا تھا اور ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح کو 35 فیصد سے کم کر کے 32.5 فیصد کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ مجوزہ بجٹ میں ٹیکس سلیبس کی تعداد بھی 12 سے کم کر کے 7 کر دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اقتصادی سروے: ٹیکس چھوٹ سے قومی خزانے کو 17 کھرب 57 ارب روپے کا نقصان ہوا
سرکاری ذرائع کے مطابق نظرثانی شدہ ٹیکس سلیب اور دیگر تجاویز عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو جمع کرادی گئی ہیں۔
عہدیدار نے کہا کہ ’تکنیکی سطح پر بات چیت آئندہ چند روز میں شروع ہو جائے گی، ان کا کہنا تھا کہ ’وہ تنخواہ دار طبقے کو نچلے سلیبس میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں گے‘۔
اسلام آباد میں فنڈ کے نمائندے نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ وہ ’حکام کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں تا کہ کچھ ریونیو اور اخراجات کے بارے میں مزید وضاحت حاصل کی جائے‘۔
ڈان کی جانب سے ارسال کردہ تحریری سوالات کا جواب دیتے ہوئے آئی ایم ایف کی ریزیڈینٹ نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے کہا کہ ’ہم نے دیکھا کہ گزشتہ جمعہ قومی اسمبلی میں بجٹ کا مسودہ پیش کیا گیا‘۔
مزید پڑھیں: سیاسی مخالفت کے پیش نظر بجٹ میں غیرمقبول ٹیکس کے نفاذ سے گریز
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ابتدائی تخمینوں کے مطابق بجٹ کو مضبوط بنانے اور اسے اہم پروگرام کے مقاصد کے مطابق لانے کے لیے اضافی اقدامات کی ضرورت ہوگی۔
آئی ایم نمائندہ کا کہنا تھا کہ ’فنڈ کا عملہ اس سلسلے میں اور عمومی طور پر میکرو اکنامک استحکام کو فروغ دینے کے لیے پالیسیوں کے نفاذ میں حکام کی کوششوں کی حمایت جاری رکھنے کے لیے تیار ہے‘۔
سینیٹ کمیٹی میں بجٹ تجاویز پر غور
دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں سال 23-2022 کے بجٹ کے ٹیکس اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ریسٹورنٹ سروسز اور اشیا کی سپلائی پر الگ الگ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بجٹ23-2022: 'ٹیکس سے ہونے والی آمدن کا 56 فیصد قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہوگا'
چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے کہا کہ ریسٹورنٹ سروسز صوبائی معاملہ ہے اور مرکز اور صوبوں کے درمیان سامان کی فراہمی کا مسئلہ تھا، لیکن اب یہ معاملہ طے پا گیا ہے۔
اجلاس میں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی بزنس کلاس کے ہوائی ٹکٹوں کے علاوہ ٹیلی کام سروسز پر بھی ٹیکس بڑھانے کی تجویز کی منظوری دی گئی۔
سینیٹر فاروق نائیک نے زیورات کی درآمد پر 4 فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ پر سوالات اٹھائے, انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ صوبائی موضوع ہے اور پوچھا کہ ایسا ٹیکس کس قانون کے تحت لگایا گیا ہے۔
کمیٹی نے الیکٹرک گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں 12.5 فیصد سے 17 فیصد اضافے کو بھی مسترد کر دیا جبکہ سینیٹر فاروق نائیک نے چھوٹی الیکٹرک گاڑیوں کے لیے استثنیٰ کی تجویز دی۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے نمائندوں نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے درآمدی سامان پر پابندی سے تعمیراتی شعبہ بری طرح متاثر ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں چھ بڑے ہوٹلوں کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے، پابندی نہ ہٹائی گئی تو یہ منصوبہ متاثر ہو سکتا ہے۔