پاکستان

پنجاب: 32 کھرب 26 ارب روپے کا بجٹ پیش، تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایوان اقبال میں ہوا۔
|

غیر معمولی آئینی اور سیاسی صورتحال کے دوران گورنر کی جانب سے ایوان اقبال میں طلب کردہ اجلاس میں وزیر خزانہ پنجاب اویس لغاری نے مالی سال 23-2022 کا 32 کھرب 26 ارب روپے حجم کا صوبائی بجٹ پیش کردیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس ایوان اقبال میں ہوا، ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری نے اجلاس کی صدارت کی جبکہ دوسری جانب اسپیکر پرویز الہٰی کی سربراہی میں پنجاب اسمبلی میں بھی اجلاس ہوا، جس میں مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے ارکان صوبائی اسمبلی شریک تھے۔

ایوان اقبال میں ہونے والے حکومتی اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز جبکہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی احمد رضا سرور بھی موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: ایک ہزار 714 ارب کا بجٹ پیش، تعلیم کیلئے 326 ارب مختص، تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ

پنجاب اسمبلی کااجلاس سوا 2 گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا، ڈپٹی اسپیکر سردار دوست مزاری نے اجلاس کے آغاز میں گورنر پنجاب کا نوٹی فکیشن پڑھ کر سنایا، اسپیکر نے پینل آف چیئرمین کے ناموں کا اعلان بھی کیا، پینل آف چئیرمین میں رانا مشہود، خلیل طاہر سندھو، سمیرا احمد، مخدوم عثمان کے نام شامل تھے۔

ڈپٹی اسپیکر سردار دوست مزاری نے کہا کہ گورنر پنجاب نے صوبائی اسمبلی کا اجلاس بجٹ کے لیے مختص کیا ہے، سردار اویس لغاری بجٹ پیش کریں جس کے بعد صوبائی وزیر خزانہ سردار اویس لغاری نے بجٹ تقریر کا آغاز کرتے ہوئے سابق پی ٹی آئی کی حکومت پر سخت تنقید کی۔

'سابق حکومت کے مجرمانہ طرز عمل کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں'

سردار اویس لغاری نے کہا کہ سابق وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے گزشتہ سال پاکستان کی تاریخ کی ترقی کے حوالے سے بدترین سال تھے، صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی، کرپشن کے ریکارڈ رقم ہو رہے تھے، اس دوران کوئی قابل ذکر کارنامہ نظر نہیں آتا، صرف مخالفین کے خلاف الزام تراشیاں کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ جب 18۔2017 میں مسلم لیگ (ن) نے اپنا آخری بجٹ پیش کیا تھا اس وقت ملک کی شرح نمو میں اضافہ ہو رہا تھا جبکہ فی کس آمدنی بھی 1629 ڈالر تک پہنچ گئی تھی، ملک کو سرمایہ کاری کے لیے موزوں ملک قرار دیا گیا، اسٹاک مارکیٹ اوپر جارہی تھی، عالمی ادارے معاشی ترقی کی تائید کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: 1332 ارب کا بجٹ، ترقیاتی منصوبوں کیلئے 418 ارب، تنخواہوں میں 16 فیصد اضافہ

اویس لغاری نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان نواز شریف اور شہباز شریف کی قیادت میں سی پیک کے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری تھا، سی پیک کے تحت 51 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی، اس وقت کے سب سے بڑے چینلج توانائی کے بحران پر قابو پایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے جرائم میں سی پیک اور چین کے ساتھ ان کی بدسلوکی سرفہرست ہوگی، عوام جانتے ہیں کس نے چینی صدر کا دورہ ملتوی کرایا، کس نے اعلان کیا تھا کہ ہم ان منصوبوں میں شامل بیرونی سرمایہ کاروں کے خلاف مقدمے چلائیں گے، ان کے ان مجرمانہ طرز عمل کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس بدترین صورتحال میں بھی ہم مایوس نہیں ہیں، ہم نے کیا تھا اور آئندہ بھی کرکے دکھائیں گے، سابق حکومت نے توانائی کے مسئلے پر توجہ نہیں دی جو کہ کئی مسائل کی جڑ ہے جن میں بیروزگاری، غربت اور مہنگائی بھی شامل ہیں۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ 3 سالوں کے دوران صوبے کے تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعداد میں کمی ہوئی، اس کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے میں بھی ان کی کارکردگی مایوس کن رہی، سرکاری ہسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی صرف اس لیے بند کردی گئی کیونکہ وہ منصوبہ شہباز شریف نے شروع کیا تھا، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے صوبے میں کینسر کے مریضوں کے مفت علاج کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیش، دفاعی بجٹ میں اضافہ، ماہانہ ایک لاکھ تک تنخواہ پر ٹیکس ختم

انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے کینسر کے مفت علاج کے خاتمے کا اعلان کیا، ہماری حکومت کے صحت کارڈ پروگرام کو انصاف کارڈ کا نام دے کر عوام کی اشک جوئی کی ناکام کوشش کی گئی، ان کے دور حکومت میں نہ کوئی نیا ہسپتال بنایا گیا نہ کوئی یونیورسٹی۔

'بجٹ کی تیاری میں ماہرین کی تجاویز کو مدنظر رکھا گیا'

ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے عوام کو مستقل ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کے بجائے پناہ گاہوں کے خواب دکھائے، ٹرانسپورٹ کا کوئی نیا منصوبہ متعارف نہیں کرایا گیا، خواتین کی فلاح و بہبود کے شعبے کو مکمل طور پر انداز کیا گیا، ایک کروڑ نوکریاں اور 50 گھروں کی تعمیر کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔

اویس لغاری نے کہا کہ مہنگائی کا طوفان کھڑا کرنے والے سابق حکمراں آج بھی ملک میں آئینی و قانونی بحران کھڑا کرنے میں مصروف ہیں، ان کی غفلت کے باعث جاری منصوبوں کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے احکامات کی روشنی میں صوبائی حکومت کے لیے ان مشکل حالات میں ایک مکمل اور متوازن بجٹ پیش کرنا آسان نہیں تھا مگر ہماری جماعت نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک عوام دوست بجٹ کی تیاری کو یقینی بنایا جس کی ترجیح مہنگائی کے ستائے عوام کو سماجی تحفظ کی فراہمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی کی آزادانہ حیثیت ختم، وزارت قانون کے ماتحت کردیا گیا

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ عوام دوست بجٹ کی تیاری میں تمام اہم شعبوں کے ماہرین کی جانب سے موصول ہونے والی تجاویز کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عالمی معاشی بحران کے علاوہ ملکی برآمدات میں کمی، پیٹرول کی قیمت میں عالمی سطح پر اضافے سے ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، رہی سہی کسر سابق حکومت کے رویے کے علاوہ ان کے آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر کیے گئے معاہدے نے پوری کردی۔

انہوں نے کہا کہ ان کی معاہدے کی پاسداری ہماری حکومت کو کرنی پڑی، کیونکہ عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی پاکستان پر سے ان کا اعتماد ختم کرسکتی ہے۔

بجٹ کے چیدہ نکات:

ترقیاتی بجٹ میں 22 فیصد اضافہ

شعبہ تعلیم

شعبہ زراعت اور لائیو اسٹاک

ویمن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک ارب 27 کروڑ روپے مختص

اویس لغاری نے بتایا کہ ملک کی ترقی میں خواتین کا اہم کردار ہے، خواتین ہمارے ملک کی آبادی کا نصف حصہ ہیں، ان کی فلاح و بہبود حکومت کی اولین ترجیح ہے، حکومت نے ویمن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے لیے مجموعی طور پر ایک ارب 27 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے جبکہ خواتین اساتذہ، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور پولیو ورکرز کو اسکوٹیز بھی دی جائیں گی۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد، پنشن میں 5 فیصد اضافہ

وزیر خزانہ اویس لغاری نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گریڈ ایک سے گریڈ 19 تک ایک حد سے کم الاؤنس لینے والوں کو 15 فیصد اسپیشل الاؤنس بھی دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں مزدور کی کم سے کم اجرت بھی 20 ہزار روپے سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کردی گئی ہے۔

واضح رہے کہ ایوان اقبال میں بجٹ اجلاس کے دوران دوسری جانب اسپیکر پرویز الہٰی کی سربراہی میں پنجاب اسمبلی میں بھی اجلاس ہوا، جس میں مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے ارکان صوبائی اسمبلی شریک تھے۔

اجلاس میں پی ٹی آئی رکنِ اسمبلی ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایوان میں صوبائی وزیر عطا اللہ تارڑ کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرائی جسے منظور کرلیا گیا جس کے بعد اسپیکر نے اجلاس کل تک کے لیے ملتوی کردیا۔

یاد رہے کہ پنجاب میں ہر گزرتے دن کے ساتھ گمبھیر ہوتے سیاسی بحران کے دوران گورنر بلیغ الرحمٰن نے ایک نوٹی فکیشن جاری کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی آزادانہ حیثیت کو ختم کردیا تھا۔

یہ پیشرفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی تھی جب مقررہ دن سے 2 روز بعد بھی پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش نہیں کیا جا سکا تھا۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کے دستخط سے جاری ہونے والے آرڈیننس میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کی گئی۔

نوٹی فکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا جس کے تحت جب بھی گورنر، اسپیکر یا حکومت پنجاب کے سیکریٹری اجلاس طلب کریں گے تو محکمہ قانون و پارلیمانی امور اسمبلی میں اجلاس طلب کرنے کے حوالے سے نوٹی فکیشن جاری کریں گے۔

نوٹی فکیشن کے مطابق پنجاب سیکریٹریٹ سروس ایکٹ 2019 کے نویں حصے کے ساتھ ساتھ دو مزید ایکٹ بھی ختم کردیے گئے۔

ان تبدیلیوں کے بعد پنجاب اسمبلی کی خودمختار حیثیت ختم کردی گئی اور اب اسمبلی، وزارت قانون کے ایک ادارے کے طور پر کام کرے گی جبکہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی کو وزارت قانون کے ماتحت کردیا گیا۔

ایسا ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ صوبائی اسمبلی کے بیک وقت 2 بجٹ اجلاس ہو ئے۔

اس معاملے پر رد عمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے کہا کہ اسمبلی کا جو مذاق بنا دیا گیا اس کو زیادہ برداشت نہیں کیا جا سکتا، اس معاملے پر ہمیں عدلیہ سے رجوع کرنا ہوگا اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرکے انہیں ڈی سیٹ کروائیں گے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہری پرویز الہٰی کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما راجا بشارت نے کہا کہ قانونی طور پر حکومت مضبوط ہوتی تو کبھی ایوان اقبال نہ جاتی۔

اسپیکر پنجاب پرویز الہٰی کا کہنا تھا کہ اجلاس پہلے سے چل رہا ہو تو نیا اجلاس نہیں ہو سکتا، پنجاب اسمبلی ایک ادارہ ہے، آرڈیننس کے ذریعے پنجاب اسمبلی کو کمزور کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس سیکرٹری ہے اور نہ ہی اسٹاف ہے، ایسا غیر جمہوری کام کیا ہے جو کبھی کسی نے نہیں کیا، اسپیکر کے ہوتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوتا، گورنر پنجاب کے پاس اختیار نہیں تھا جو انہوں نے استعمال کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما محمود الرشید کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گےاور ڈپٹی اسپیکر کو ڈی سیٹ کروائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کے نوٹس میں لائے ہیں کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہ کریں جبکہ گورنر کے اقدامات غیرقانونی ہیں، ہم نے اسمبلی میں آرڈیننس کو ختم کر دیا اب اس کا وجود نہیں ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف 24 کروڑ، عمران خان 14 کروڑ سے زائد اثاثوں کے مالک

آئی پی ایل کے نشریاتی حقوق ریکارڈ 6.2 ارب ڈالر میں فروخت

’جاوید اقبال: دی اَن ٹولڈ اسٹوری آف آ سیریل کلر' برلن فیسٹیول میں پیش ہوگی