پاکستان

سندھ میں پانی کے بہاؤ کے معائنے پر قومی اسمبلی کی کمیٹی سے پنجاب ناخوش

کمیٹی کی جانب سے پانی کا جائزہ لینے کے لیے سندھ میں دریا پر جس مقام کا انتخاب کیا گیا وہ درست نہیں ہے، پنجاب حکام

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے تونسہ اور گڈو بیراجوں میں پانی کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اپنائے گئے معیار پر پنجاب حکام نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے حالیہ دورے پر سوال اٹھاتے ہوئے پنجاب حکام نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کمیٹی کی جانب سے پانی کا جائزہ لینے کے لیے سندھ میں دریا پر جس مقام کا انتخاب کیا گیا وہ درست نہیں ہے جبکہ اس مقام پر پانی کا معائنہ کرنے کے لیے ان کے نمائندے کو بھی کمیٹی سے نکال دیا گیا۔

حال ہی میں رکن قومی اسبملی خالد مگسی، ریاض الحق اور وزارت آبی وسائل اور توانائی کے سیکریٹری سید مھر علی شاہ نے سندھ اور پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے نمائندوں کے ہمراہ دونوں صوبوں میں پانی کی قلت پر اعتراضات دور کرنے کے لیے پنجاب میں تونسہ بیراج اور سندھ میں سکھر اور گدو بیراجوں کا دورہ کرکے پانی کے بہاؤ کا معائنہ کیا۔

مزید پڑھیں: آبپاشی کیلئے پانی کی قلت 45 فیصد تک پہنچ گئی، اِرسا نے صوبوں کو خبردار کردیا

پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ تونسہ میں کوئی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں پائی گئی کیونکہ قومی اسمبلی کی کمیٹی کی نگرانی کے دوران صوبے کی جانب سے پانی کے اخراج کی اطلاع درست پائی گئی تھی اور سندھ کی جانب سے پانی کے بہاؤ پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب نے گدو بیراج میں 300 فٹ ڈاون اسٹریم پر ایک بے قاعدہ مقام کے انتخاب پر اعتراض کیا ہے کیونکہ یہ اخراج 15 مئی کو بیراج پر سندھ کی جانب سے اور 16 مئی کو سکھر میں رپورٹ کیے گئے پانی کے اخراج سے بہت کم تھی، گدو سے سکھر تک پانی کی ترسیل میں تقریباً 24 گھنٹے لگتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 44 ہزار کیوسک کے مبینہ اخراج کے برعکس مانیٹرنگ ٹیم نے 15 مئی کو بہاؤ 34 ہزار کیوسک پایا جو کہ 10 ہزار کیوسک یا مائنس 22.7 فیصد کا فرق ہے جبکہ اگلے روز (16 مئی) کو سندھ کے محکمہ آبپاشی نے سکھر میں ڈاون اسٹریم پر 38 ہزار کیوسک پانی کا بہاؤ ریکارڈ کیا۔

پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے عہدیدار نے کہا ’پانی کے اخراج میں کمی کی بجائے بہاؤ اور بخارات کے عوامل کی وجہ سے کیسے اضافہ ہوا؟ ٹرانسمیشن کے دوران سندھ کی طرف سے رپورٹ ہونے والے پانی کے نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا یہ اندازہ ہے کہ سکھر میں بہاؤ 28 ہزار سے 30 ہزار کیوسک کے درمیان ہونا چاہیے‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے بے ضابطگی کو دور کرنے کے لیے دریا کے یکساں کنارے والے حصے میں مشترکہ مشاہدے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اس کے بجائے پنجاب کے نمائندے کو کمیٹی سے نکال دیا گیا اور اسے سندھ میں موجود ایک باقاعدہ سیکشن بڈانی پوائنٹ پر نگرانی میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ: پانی کی قلت سے تباہ کن حالات

انہوں نے مزید کہا کہ گدو بیراج پر گزشتہ 10 روز میں کی گئی خلاف ورزیوں کی وجہ سے سکھر بیراج میں پانی کی اخراج کا معائنہ نہیں کیا جا سکتا جبکہ پٹ فیڈر اور گھوٹکی کینال میں پانی کے بہاؤ کا معائنہ کرنے کے لیے کمیٹی نے پنجاب کی درخواست بھی رد کردی، بیراجوں پر پانی کا معائنہ کرنے کے لیے کمیٹی کی جانب سے اگلی تاریخ بھی مقرر نہیں کی گئی۔

انہوں نے اس بات کی بھی شکایت کی کہ 25 مئی کو ہونے والی میٹنگ کو منسوخ کرنے کی گذارش پر بھی غور نہیں کیا گیا کیونکہ صوبے کا موقف رکھنے کے لیے نہ تو پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے وزیر اور نہ ہی سیکریٹری اس دن موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کمیٹی تمام اسٹیک ہولڈرز کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے بعد اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دے گی لیکن کمیٹی کی یک طرفہ کارروائی میڈیا پر لیک ہو گئی جس میں یہ تاثر دیا گیا کہ پنجاب میں پانی چوری کرنے والے مافیا کی جانب سے پانی چوری کے نتیجے میں تونسہ اور گدو بیراج میں پانی کی قلت پیدا ہوئی ہے۔

سندھ طاس معاہدے پر مذاکرات

دریں اثنا سید مہر علی شاہ کی سربراہی میں ایک 5 رکنی وفد 1960 میں طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق انڈس کمیشن کے 118ویں اجلاس میں شرکت کے لیے نئی دہلی کا دورہ کرنے والے ہیں۔

پنجاب سے بھارت جانے کے لیے وفد آج واہگہ بارڈر کے راستے روانہ ہوگا اور سیلاب کی پیشگی سے متعلق معلومات کی فراہمی پر 2 روزہ اجلاس اور کمیشن کی سالانہ رپورٹ کو حتمی شکل دے کر دستخط کرنے کے بعد یکم جون کو اسی راستے سے واپس آئے گا۔

مزید پڑھیں: تربیلا ڈیم، چشمہ بیراج پر پانی کی سطح میں کمی نے ایک بار پھر خطرے کی گھنٹی بجادی

بھارت جانے والے وفد میں پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے انجنیئر حبیب اللہ بودلہ، محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل صاحبزادہ خان، نیسپک کے جنرل مینیجر خالد محمود اور بھارت میں وزارت خارجہ کے ڈایریکٹر سمن منیب بھی شریک ہوں گے۔

وفد کے ایک رکن نے بتایا کہ نئی دہلی نے 2018 سے سیلاب کا پیشگی ڈیٹا شیئر کرنا بند کر دیا ہے اس لیے وہ بھارتی فریق سے درخواست کریں گے کہ معلومات کا تبادلہ دوبارہ شروع کیا جائے تاکہ جانی اور مالی نقصانات کو روکا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں فریقین 100 میگاواٹ کے پاکل دول، 48 میگاواٹ کے لوئر کلنائی اور 624 میگاواٹ کے کیرو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر بھی بات کریں گے جو بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے مختص کیے گئے دریاؤں پر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پانی کی قلت: سندھ کو ’آفت زدہ‘ صوبہ قرار دینے کا مطالبہ

پاکستان نے مارچ میں بھارتی وفد کے دورہ اسلام آباد کے دوران تینوں منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھائے تھے اور انہیں معاہدے کی شق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

وفد کے رکن نے کہا کہ اگر ان کے خدشات کو دور نہیں کیا گیا تو معاملہ بات چیت کے لیے اعلیٰ حکام کو بھیجا جائے گا یا اسے غیر جانبدار ماہر اور انصاف کی عالمی عدالت میں لے جایا جائے گا۔

بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے 9 دیگر منصوبوں کی تعمیر پر بھی پاکستان نے اعتراض کیا ہے، جن میں سے ہر ایک کی 25 میگاواٹ پیدا کرنے کی صلاحیت ہےاور ان میں سے بیشتر لداخ میں دریائے سندھ پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

پاکستان کے ٹی ٹی پی سے کامیاب مذاکرات کے امکانات ’محدود‘ ہیں، اقوام متحدہ

عامر لیاقت کا تینوں سابق بیویوں کے نام پیغام

گوگل کی جانب سے ذاتی آواز کی شناخت کا فیچر متعارف کرائے جانے کا امکان