کراچی یونیورسٹی میں رینجرز اہلکار کی طالب علم کے ساتھ بدتمیزی پر انکوائری کا حکم
کراچی یونیورسٹی کے طالب علم کے ساتھ رینجرز اہلکار کی مبینہ بدسلوکی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد انتظامیہ نے معاملے کی انکوائری کا حکم دے دیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل رینجرز کی کراچی یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ ایک ملاقات کے سلسلے میں یونیورسٹی آمد کے پیش نظر سیکیورٹی کے سخت اقدامات پر ایک طالب علم نے رینجرز افسر سے بحث کی جس پر اس نے طالب علم کو تھپڑ رسید کیے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رینجرز کے اعلیٰ حکام کی اساتذہ اور انتظامیہ کے ساتھ ملاقات کا مقصد یہ تھا کہ معاشرے کو متاثر کرنے والی نئی قسم کی انتہا پسندی سے کیسے نمٹا جائے جو خودکش حملوں کا سبب بنتی ہے۔
مزید پڑھیں: جامعہ کراچی دھماکا: پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل سے مشتبہ شخص زیر حراست
کراچی یونیورسٹی کے ایک عہدیدار نے کہا کہ گزشتہ روز رینجرز حکام کی آمد پر کیمپس کے نزدیک کسی کو بھی موٹرسائیکل لے جانے کی اجازت نہیں تھی جو طلبہ کے لیے مشکل کا سبب بنی، 26 اپریل کو یونیورسٹی میں چینی اساتذہ کی گاڑی پر خودکش حملے کے بعد سے طلبہ کو مسلسل مشکلات کا سامنا ہے اور حملے کے بعد انتظامیہ نے طلبہ پر مزید سخت پابندیاں عائد کردی ہیں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ چینی اساتذہ پر حملے کے بعد یونیورسٹی نے طلبہ کی کیمپس میں داخلے کے لیے دستی اندراج کا طریقہ کار اپنایا ہے جس کی وجہ سے طلبہ کیمپس کے باہر کئی گھنٹوں تک انتظار کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں اپنے متعلقہ شعبوں تک پہنچنے کے لیے 2 سے 3 کلومیٹر کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔
ایک سینئر عہدیدار نے مزید بتایا کہ طالبات کے لیے صورتحال مزید مشکل ہو گئی ہے کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے رکشا اور پک اینڈ ڈراپ وین سروس کی کیمپس میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے اور ان کی رجسٹریشن کا عمل ابھی شروع نہیں ہوا ہے، اس کے علاوہ حملے کے بعد مرکزی کیفے ٹیریا اور ٹک شاپس بھی بند کردی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے خودکش دھماکے کا مقدمہ درج کرلیا گیا
ذرائع نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ تاحال اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں ناکام ہے کہ کئی دہائیوں سے متعدد چیلنجز کا سامنا کرنے والے کیمپس کے لیے ایک مؤثر سیکیورٹی پلان کیسے وضع کیا جائے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ ان چیلنجز میں یونیورسٹی کے مالی بحران کے ساتھ ساتھ غیر تربیت یافتہ سیکیورٹی عملہ بھی شامل ہے جن میں سے بیشتر سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے ہیں، جبکہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کیمپس میں چوریاں کرنے میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
یونیورسٹی کے ایک استاد نے بتایا کہ ان مسائل کے سبب یونیورسٹی انتظامیہ رینجرز سے مدد لینے پر مجبور ہے جو اکثر سفاکانہ طاقت کا سہارا لیتی ہے، جس سے کیمپس میں ایک مختلف قسم کی بدامنی پیدا ہوتی ہے، انہوں نے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا کہ آنے والے دنوں میں امتحانات شروع ہونے پر طلبہ کے لیے مزید مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
ذرائع نے مزید کہا کہ خودکش حملے کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی اقدامات میں معاونت کا وعدہ تاحال پورا نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ خودکش حملے کے بعد یونیورسٹی کو جدید ترین حفاظتی آلات سے لیس کرنے کے لیے چند ہفتوں کے لیے بند کر دینا چاہیے تھا تاکہ طلبہ کو تکلیف نہ ہو۔
مزید پڑھیں: جامعہ کراچی میں خود کش دھماکا، تین چینی باشندوں سمیت 4 افراد جاں بحق
ذرائع نے کہا کہ یونیورسٹی کو چاہیے تھا کہ حفاظتی آلات کی بروقت فراہمی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالتی، یونیورسٹی کو واک تھرو گیٹس، بیگیج اسکینرز، ہینڈ ہیلڈ میٹل ڈیٹیکٹر اور گاڑیوں کے معائنے کے لیے آلات کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے بات کرنے کے لیے کراچی یونیورسٹی کے سیکیورٹی مشیر دستیاب نہیں تھے۔ یونیورسٹی کے ترجمان نے بتایا کہ یونیورسٹی نے چند اور بسیں شامل کی ہیں جنہیں جمعے (آج) سے مفت شٹل سروس کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے باہر صرف 20 سے 25 طلبہ قطار میں کھڑے ہیں، مرکزی کیفے ٹیریا اور 2 ٹک شاپس جمعے کو (آج) کھول دی جائیں گی جبکہ رجسٹریشن مکمل ہونے کے بعد رکشا اور وینز کو داخلے کی اجازت مل جائے گی۔