سیاسی تقسیم کے خلاف احتجاج، رضا ربانی نے ’ اہم‘ سینیٹ بل واپس لے لیے
سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے سیاسی تقیسم اور انتظامیہ سے متعلق آئینی شقوں کی مسلسل خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے بطور ذاتی رکن پیش کیے گیے پانچوں بلوں کو واپس لے لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رضا ربانی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین کو لکھے گیے خط میں کہا کہ وہ پانچوں بلوں کو واپس لے رہے ہیں جوایوان بالا کے اختیارات بڑھانے کے لیے آئینی ترامیم، صدر کے آرڈیننس جاری کرنے کے اختیارات اور صوبائی کوٹہ سسٹم سے متعلق ہیں۔
رضا ربانی نے لکھا کہ یہ بل 1973 کے آئین میں ترامیم سے متعلق ہیں جو کہ مقدس دستاویز اور وفاق کو مضبوط رکھنے کے لیے ابہت اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ترامیم سینیٹ کے اختیارات میں اضافے سے متعلق ہیں جو کہ وفاقی ڈھانچے کو مضبوط کرنے، وفاقی حکومت کی جانب سے آرڈیننسز جاری کرنے کے صوابدیدی اختیارات، 1973 کے آئین میں درج ٹائم فریم میں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کا اجرا نہ ہونے کی صورت میں صوبوں کے حصے بڑھانے سے متعلق ہیں۔
مزید پڑھیں: آئینی بحران کے دوران سپریم کورٹ کی مداخلت کی مختصر تاریخ
ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم وسیع سیاسی اتفاق رائے اور تمام تر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور ان کے خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے منظور کی جانی چاہئیں، کیونکہ آئین کسی جماعت کی پراپرٹی نہیں بلکہ عوام سے متعلق ہے لہٰذا آئین کے دفاع اور اس کے تحفظ کے لیے ہمیں کھڑا ہونا چاہیے۔
سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ان حالات میں جب آئین کے ماتحت دفاتر جان بوجھ کر 1973 کے آئین کی خلاف ورزیاں کر رہے ہوں جو خود اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہو، آئینی ترامیم کرنا غیر مناسب لگتا ہے، جب 1973 کے آئین کی غلط تشریح اور خلاف ورزیاں ہو رہی ہوں یا آئین کے ماتحت اداروں کو بدنام کیا جارہا ہو، میں متذکرہ بلز کے ذریعے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں وفاق کی بقا کے لیے آئین میں ترامیم کے بجائے آئین کو محفوظ بنایا جانا اشد ضروری ہے، یہ آئین کی بقا کی جنگ ہے۔
انہوں نے سینیٹ 2012 کے قواعد و ضوابط کے رول 115 کے تحت بلوں کو واپس لیا۔
یہ بھی پڑھیں: 9 اپریل کو رات گئے عدالت کھولنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی وضاحت
پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے مزید کہا کہ غیر آئینی اور قانون کی حکمرانی کے فقدان میں بل کی واپسی پاکستانیوں کی بھاری اکثریت کی جانب سے طاقت کی سیاست کے کھیل کے خلاف احتجاج ہے، یہ گیم ہمارے معاشرے میں سیاسی تقسیم پیدا کر رہی ہے اور قومی سلامتی اور وفاق پر شدید دباؤ ڈال رہی ہے۔
’فیصلوں پر تنقید کریں، ججوں پر نہیں‘
رضا ربانی کے خط کی روشنی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون کے اراکین نے کمیٹی چیئرمین سے درخواست کی ہے کہ ملک میں جاری متعدد آئینی بحرانات پر بحث کا انعقاد کریں۔
کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر سید علی ظفر نے کہا کہ مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے بامعنی اور نتیجہ خیز بحث ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹی برائے انصاف و قانون کا تعلق عدالت کے ساتھ ہے لہٰذا اس کے مفادات کو یقینی بنانا بھی کمیٹی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی عدلیہ کوئی فیصلہ کرتی ہے تو کچھ جماعتیں اس فیصلے سے متفق جبکہ دیگر اس سے اختلاف کرتی ہیں۔
چیئرمین نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے پر مناسب رائے کا اظہار اور فیصلے پر تنقید کرنے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے تاہم ججوں پر تنقید کرنے کے عمل کو روکنا ہوگا، یہ کمیٹی ججوں پر تنقید کے بڑھتے ہوئے عمل پر قابو پانے کے لیے قوانین لاسکتی ہے اور تجاویز دے سکتی ہے۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ جج اپنے دفاع کے لیے اپنے چیمبر سے باہر نہیں آسکتے اس لیے یہ ذمہ داری کمیٹی پر عائد ہوتی ہے۔