پی ٹی آئی ارکان کی حمزہ شہباز کی حلف برداری کی تکمیل کے فیصلے کے خلاف درخواست
پاکستان تحریک انصاف کے 17 ایم پی ایز نے لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کے اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جس میں گورنر پنجاب کو نومنتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی حلف برداری کا عمل 28 اپریل (آج) تک مکمل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے فیصلہ دیا تھا کہ حمزہ شہباز کے حلف میں مختلف حیلوں، بہانوں سے تاخیر ہو رہی ہے اور گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ خود وزیراعلیٰ پنجاب کے حلف برداری کے عمل کی تکمیل کو یقینی بنائیں یا اپنا کوئی نمائندہ مقرر کریں جو عمل کو مکمل کرے۔
حمزہ شہباز کی درخواست پر جاری کیے گئے تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 کی تمام شقیں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی فوری تشکیل کی تجویز کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:حلف برداری سے متعلق حمزہ شہباز کی درخواست اعتراض ختم ہونے پر سماعت کیلئے مقرر
عدالت نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ وہ حلف برداری میں سہولت فراہم کریں اور پنجاب میں فعال حکومت کو یقینی بنا کر 'آئین و قانون کے تحت اپنا کردار ادا کریں'۔
ڈان ڈاٹ ٹی وی کو موصول جمع کرائی گئی انٹرا کورٹ اپیل میں حمزہ شہباز ، وزیر اعظم اور صدر کو بذریعہ سیکریٹری اور گورنر کو بذریعہ پرنسپل سیکرٹری فریق بنایا گیا ہے۔
ممبران صوبائی اسمبلی کی جانب سے ایڈوکیٹ اظہر صدیق اور رانا مدثر نے اپیل دائر کی ہے۔
انٹرا کورٹ اپیل میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کیخلاف ہے, ہائی کورٹ کی جانب سے حلف کی میعاد مقرر کرنا صدر اور گورنر کے عہدے کی توہین ہے۔
یہ بھی پڑھیں:حلف لینے سے انکار، حمزہ شہباز کا گورنر پنجاب کیخلاف عدالت جانے کا فیصلہ
انٹرا کورٹ اپیل میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے پاس گورنر اور صدر کیخلاف کوئی بھی کاروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے، آئین کا آرٹیکل 248 صدر اور گورنر کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔
پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے دائر کی گئی انٹرا کورٹ اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ سنگل بینچ کا گورنر پنجاب کو حلف برداری سے متعلق دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دے۔
حلف برداری کا تنازع
حمزہ شہباز کے حلف کے بارے میں تنازع 17 اپریل کو ان کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے ایک دن بعد شروع ہوا تھا جب گورنر عمر سرفراز چیمہ نے ان سے یہ کہتے ہوئے حلف لینے سے انکار کردیا تھا کہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی کی رپورٹ، لاہور ہائیکورٹ کی ہدایات اور ان کے سامنے پیش کیے گئے حقائق کے باعث وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔
گورنرپنجاب کا کہنا تھاکہ ’میں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کو خط لکھتے ہوئے سیکریٹری کی رپورٹ پر ان کا بیانیہ طلب کیا ہے، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات اور دیگر حقائق کے بعد حلف برداری کی تقریب منعقد کروانے کے حوالے سے میرا ذہن تذبذب کا شکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں:حمزہ شہباز کی حلف برداری، عدالت کا گورنر پنجاب کو کل تک اقدامات مکمل کرنے کا حکم
گورنر پنجاب کے اس بیان کے بعد مسلم لیگ (ن) کی مرکزی ترجمان مریم اورنگزیب کے حوالے سے ایک خبر سامنے آئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ گورنر پنجاب کو وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
تاہم گورنر پنجاب نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک آئینی عہدہ رکھتے ہیں ، انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ "صرف پاکستان کے صدر کو گورنر کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا اختیار ہے۔
اس تمام صورتحال پر حمزہ شہباز نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، سماعت کے دوران عدالت نے صدر علوی کو ہدایت کی تھی کہ وہ پنجاب کے نومنتخب وزیراعلیٰ حمزہ شہباز سے حلف لینے کے لیے نمائندہ مقرر کریں۔
تاہم، 25 اپریل کو حمزہ شہباز نے اپنی حلف برداری کی تقریب کے حوالے سے مداخلت کے لیے دوسری بار لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ صدر عارف علوی حلف برداری کے لیے کسی اور فرد کی نامزدگی میں تاخیر کر رہے ہیں جیسا کہ ہائی کورٹ نے پہلے ہدایت کی تھی۔