پاکستان

لاہور ہائیکورٹ: وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے درخواست پر اسپیکر،ڈپٹی اسپیکر کو نوٹس

وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے مسلم لیگ(ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے درخواست دائر کی تھی۔
|

لاہور ہائی کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کی درخواست کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو نوٹس جاری کردیے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کرانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ: پی ٹی آئی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے التوا میں مشکلات

حمزہ شہباز کی جانب سے درخواست میں اسپیکر پرویز الہٰی، ڈپٹی اسپیکر اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یکم اپریل سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ خالی ہے اور صوبہ پنجاب یکم اپریل سے بغیر چیف ایگزیکٹو کے چل رہا ہے، لہٰذا پنجاب اسمبلی کا سیشن کال کر کے فوری وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرایا جائے۔

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے الیکشن کے انعقاد کے بغیر ایوان کی سماعت ملتوی اور پنجاب اسمبلی کے احاطے کو سیل کرنے کے اقدامات کا نوٹس لیا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی کے اراکین کو ان کے آئینی مینڈیٹ کے استعمال سے روکنے اور کسی قانونی اتھارٹی کے بغیر اراکین کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بنیادی حق کے استعمال سے روکنے کا بھی نوٹس لیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز پنجاب کے وزیراعلیٰ 'منتخب' ہوگئے ہیں، اپوزیشن کا دعویٰ

حمزہ شہباز نے استدعا کی کہ عدالت پنجاب اسمبلی کا سیشن فوری طلب کرنے اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا عمل کسی التوا کے بغیر مکمل کرنے کی ہدایات بھی جاری کرے۔

اس کے ساتھ ساتھ درخواست میں مزید کہا گیا کہ پٹیشن میں جن افراد کو فریق بنایا گیا ہے ان کو ہدایت کی جائے کہ وہ کسی رکاوٹ یا مداخلت کے بغیر پنجاب اسمبلی اجلاس میں شرکت کے خواہاں اراکین کو آنے دیں گے تاکہ وہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے اپنا ووٹ ڈال سکیں۔

ڈپٹی اسپیکر کی درخواست

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے بھی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

انہوں نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ کسی اتھارٹی کے بغیر اسپیکر پنجاب اسمبلی اور وزیر اعلیٰ کے امیدوار کی جانب سے جاری کیا جانے والا غیر قانونی حکم کالعدم قرار دیا جائے۔

ڈپٹی اسپیکر نے مزید کہا کہ اسپیکر کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد اب درخواست گزار قانونی طور پر اسپیکر کے اختیارات کے حامل ہو گئے ہیں کیونکہ اب وزیر اعلیٰ کا امیدوار ہونے کی وجہ سے اسپیکر ان اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتے، لہٰذا وزیر اعلیٰ کے انتخاب تک اب قانون کے تحت وہ ہی اسپیکر کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے جاری انتخابی عمل کو کسی تعطل کے بغیر شفاف طریقے سے مکمل کرنے کی ہدایات جاری کرے۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع

حمزہ شہباز کے ساتھ ساتھ دوست محمد مزاری کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو گئی تھی اور درخواست کی سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس امیر بھٹی کو کرنی تھی۔

تاہم رجسٹرار آفس نے حمزہ شہباز اور ڈپٹی اسپیکر کی درخواست پر اعتراض عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسپیکر کے احکامات عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتے۔

دونوں درخواستوں پر اعتراض ختم

لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہباز کی درخواست پر بطور اعتراض کیس کی سماعت ہوئی تو شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو پنجاب اسمبلی میں داخل نہیں ہونے دیا جارہا، پہلے 6 اپریل کو ووٹنگ کا کہا گیا لیکن اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب 16 اپریل ووٹنگ کی تاریخ دے دی گئی تو پھر کیا ایشو ہے، اس پر شہبازشریف کے وکیل نے جواب دیا کہ صوبے میں کئی دن سے چیف ایگزیکٹو ہی نہیں ہے لہٰذا یہ انتہائی اہم معاملہ ہے، 14 کروڑ آبادی کے صوبے میں وزیر اعلیٰ ہے اور نہ کوئی کابینہ ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 5 اپریل کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے سپریم کورٹ میں بیان دیا تھا کہ 6 اپریل کو ووٹنگ ہو جائے گی، جب ڈپٹی اسپیکر کو پتا چلا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بیان دے چکے ہیں تو انہوں نے اجلاس بلایا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کہاں ہیں اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو فوری طلب کر کے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔

لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز اور دوست مزاری کی درخواستوں پر عائد اعتراض ختم کر دیا اور درخواستوں پر نمبر لگا کر فکس کرنے کی ہدایت کر دی۔

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو نوٹس جاری

مقدمے کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو طلب کیا تھا، وہ کہاں ہیں۔

اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اس وقت اسلام آباد میں ہیں، اس لیے پیش نہیں ہو سکتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پیر کے لیے نوٹس کر کے متعلقہ فریقین سے جواب طلب کر لیتے ہیں جس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پیر تک بہت دیر ہو جائے گی، یہ آئینی معاملہ ہے اور سپریم کورٹ نے تو اتوار کو بھی کیس سنا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ آئینی اور اہم معاملہ ہے لہٰذا کل کے لیے فکس کر دیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سماعت آئین و قانون کے مطابق ہی ہونی ہے، آج تو آپ نے کیس فائل کیا ہے، ریکارڈ آئے گا تو ہی کیس سن سکتے ہیں، ریکارڈ تو آنے دیں، ہمیں قانون اور آئین کے ضابطے کے تحت چلنا ہے۔

عدالت نے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سیکریٹری پنجاب اسمبلی کو آئندہ سماعت پر ریکارڈ سمیت ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا، جبکہ چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو بھی نوٹس جاری کردیے۔

لاہور ہائی کورٹ نے حمزہ شہباز اور دوست مزاری کی درخواستوں پر کارروائی 11 اپریل تک ملتوی کر دی۔

لاہور ہائی کورٹ میں حمزہ شہباز کی نمائندگی کرنے والے وکلا میں سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر سردار اکبر ڈوگر، سابق سیکریٹری محسن عباس اور رفاقت ڈوگر شامل ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کا چناؤ

گزشتہ ماہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے تحریک عدم اعتماد پر مستعفی ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کے لیے نئے سربراہ انتخاب کی ضرورت ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کے امیدوار کے طور پر مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ پی ایم ایل این نے حمزہ شہباز کو نامزد کیا ہے۔

حمزہ شہباز کو پی ٹی آئی کے منحرف اراکین، جہانگیر ترین اور علیم خان گروپس کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی دوڑ میں ان کے آگے بڑھنے کی توقع ہے۔

وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے لیے امیدوار کو 371 ایوان میں موجود اراکین میں سے 186 اراکین کے ووٹ درکار ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 183، مسلم لیگ (ق) کے 10، مسلم لیگ (ن) کے 165، پیپلز پارٹی کے 7 اراکین موجود ہیں، جبکہ صوبائی اسمبلی میں5 آزاد اراکین ہیں اور ایک تعلق راہِ حق پارٹی سے ہے۔

وزیر اعلیٰ کی نشست پر ہار یا جیت کا فیصلہ جہانگیر ترین کی حمایت پر منحصر ہے، جن کے کہنا ہے کہ ان کے پاس کم ازا کم 16 اراکین صوبائی کے اسمبلی کے ووٹ ہیں۔

آئینی بحران کے دوران سپریم کورٹ کی مداخلت کی مختصر تاریخ

عدالتی فیصلے کے بعد ٹوئٹر پر پی ٹی آئی ایم این ایز ٹاپ ٹرینڈ پر آگیا

’صنف آہن‘ کی آخری قسط بھی سینما میں دکھائے جانے کا امکان