پاکستان

صادق سنجرانی کے انتخاب سے متعلق یوسف رضا گیلانی کی درخواست مسترد

اگر امیدوار سمجھتا ہے کہ پریذائیڈنگ آفیسر کے غلط فیصلے کے سبب انہیں ناکام قرار دیا گیا تو قرارداد پیش کریں، اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے گزشتہ سال کے انتخابات کے نتائج کو کالعدم قرار دینے سے عدالتی مداخلت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیا درخواست گزار کے پاس کوئی حل نہیں ہے آئین کے تحت پارلیمنٹ ہاؤس کے دائرہ کار میں قرار داد پیش کی جاسکتی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے سنگل بنچ کے فیصلے کو برقرار رکھا کہ عدلیہ پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

عدالت نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے انتخاب کے خلاف دائر کردہ درخواست مسترد کردی گئی۔

مزید پڑھیں: یوسف رضا گیلانی بکے ہوئے ہیں،اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے چپکے رہیں گے، شاہ محمود قریشی

یوسف رضا گیلانے بنے درخواست میں استدعا کی تھی کہ عدالت نتیجہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی برطرفی کے لیے معاملے مداخلت کرے، ان کے وکیل فاروق ایچ آر نائیک کی رائے تھی کہ عدالتی حکم سے اندرون خانہ تبدیلی کی راہ ہموار ہوگی۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ ’ اگر درخواست گزارمحسوس کرتے ہیں کہ پریذائیڈنگ آفیسر کے غلط فیصلے کے سبب انہیں ناکام امیدوار قرار دیا گیا ہےتو مناسب طریقہ یہ ہی کہ درخواست کنندہ کی طرف سےایوان قرارداد پیش کی جائے۔

ایڈووکیٹ کاشف علی ملک نے اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے ایک طریقہ کار تجویز کیا اور فیصلے کے الفاظ کے مطابق یہ ایوان کے نگران کی صوابدید ہوگی کہ وہ اس قرارداد پر فیصلہ کرے۔

یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے انتخاب لڑا تھا جس میں انہیں ناکام قرار دیا گیا تھا، پریذائیڈنگ افسر نے ان کے حق میں ڈالے گئے ’سات ووٹوں کو مسترد کر دیا تھا‘۔

مزید پڑھیں: یوسف رضا گیلانی نے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب عدالت میں چیلنج کردیا

تاہم پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 42 درست ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ مد مقابل صادق سنجرانی 48 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے، چیئرمین کے عہدے کے انتخاب میں مجموعی طور پر 98 سینیٹرز نے ووٹ کاسٹ کیے گئے تھے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل پاکستان نے دلیل دی تھی کہ عدلیہ کا طرز عمل پارلیمنٹ میں گفتگو کا سبب نہیں بن سکتا، اسی طرح عدالت میں پارلیمنٹ کی کارروائی پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 53 کے تحت عدم اعتماد کی قرار دار پیش کی جاسکتی ہے۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے وکیل سید علی ظفر نے اٹارنی جنرل کے دلائل کی تکمیل کرتے ہوئے انہوں نے طاقت کے تصور کو اجاگر کیا اور دلیل دی کہ ان کے علیحدہ دائرہ اختیار کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ افراتفری اور انارکی کا پھیل سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی اندرونی کا کارروائی پر عدالت میں سوال نہیں اٹھایا جاسکتا اور عدالتوں نے بار بار اسی استثنیٰ کا احترام کیا ہے۔