اسٹیبلشمنٹ نے مجھے استعفیٰ سمیت تین آپشنز دیے، وزیراعظم عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے استعفیٰ سمیت تین آپشنز دیے تاہم قبل از وقت انتخابات بہتر آپشن ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے پروگرام 'پاور پلے' میں میزبان ارشد شریف کو خصوصی انٹرویو میں اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد اور غیرملکی مبینہ دھمکی کے حوالے سے تفصیلی بات کی۔
مزید پڑھیں: اتوار کو عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہوگا مزید تگڑا ہو کر سامنے آؤں گا، وزیر اعظم
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے استعفے کے پیغام سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ 'مجھے اسٹبلشمنٹ نے پیش کش کی کہ تین چیزیں ہیں، یا آپ عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے چلے جائیں یا آپ استعفیٰ دیں یا پھر انتخابات کروائیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم نے کہا انتخابات سب سے بہتر طریقہ ہے، استعفیٰ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا، عدم اعتماد ووٹ کا مطلب ہے کہ میرا ایمان ہے کہ آخری منٹ تک لڑوں گا اور اب بھی میرا یہی ایمان ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ جب قوم کے سامنے جائیں گے، ووٹ ڈالیں، ایک ملک کے خلاف سازش کا حصہ بنیں گے، تو میں چاہتا ہوں کہ دنیا کے سامنے ان کی شکلیں سامنے آئیں تاکہ ہمیشہ کے لیے ان کے اوپر مہریں لگیں'۔
'بیرونی مداخلت پر سپریم کورٹ جارہے ہیں'
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'ابھی خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں جبکہ ان سب کو پتہ چل جائے گا کہ اس دن ان کی سیاست ختم ہوجائے گی'۔
بیرونی مراسلے پر قانونی کارروائی کے حوالے سےسوال پر انہوں نے کہا کہ 'میں نے اپنے وکلا سے طویل بات چیت کی ہے، اس سے زیادہ مداخلت کیا ہوگی کہ آپ کے انتخاب میں باہر کا کوئی ملک مداخلت کر رہا ہے، اس سے زیادہ کیا ظلم ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم سپریم کورٹ میں جانے کا سوچ رہے ہیں، ہماری قانونی ٹیم کے علاوہ باہر سے بھی قانونی مشورہ لیا ہے کہ اس کا بہترین طریقہ کیا ہے، تین چار اور وکلا سے مکمل مشاورت کی'۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کی جانب سے ’امریکا‘ کا نام لینا غلطی یا زبان کا پھسلنا؟
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ 'ہم نے ان کو تفصیل سے بتایا اور انہیں مکمل مطمئن کیا، ہم نے تفصیل سے بتایا کہ درحقیقت کس طرح کی دھمکی آئی ہے اور مندرجات رکھے'۔
وزیراعظم نے مراسلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اس میں حکومت کی تبدیلی کا بھی نہیں ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ عمران خان کو تبدیل کرو، حیرت یہ ہے کہ وہ مخصوص ہے یعنی روس صرف عمران خان کی وجہ سے گئے حالانکہ سفیر ان کو بتاتا گیا کہ اداروں، دفترخارجہ، خارجہ سیکریٹریز ، آرمی چیف اور سب کی مشاورت کے بعد روس کا دورہ ہوا لیکن وہ کہتے ہیں عمران خان اکیلے کا فیصلہ تھا'۔
'میری جان کو خطرہ، اہلیہ اور دوست کے خلاف کردار کشی کی مہم'
اپوزیشن پرالزامات عائد کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ'جب یہ کسی کے پیچھے پڑتے ہیں تو ان کے مختلف طریقے ہوتے ہیں، میں ابھی بتا رہا ہوں کہ یہ مل کردار کشی کریں گے، جس کو انہوں نے گرانا ہو اس کے خلاف ہرقسم کی مہم چلاتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'انہیں میرے اوپر کیا ملے گا لیکن میری اہلیہ، ایسی خاتون جو گھر سے باہر نہیں نکلتی، اس کے اوپر پوری مہم چلائی ہوئی ہے، پھر ان کی دوست فرح پر مہم چلائی اور اس کی کردار کشی کی'۔
وزیراعظم نے کہا کہ 'میری جان کو خطرہ ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو پتہ ہے کہ عمران خان چپ کرکے بیٹھنے نہیں لگا، ان کا خیال ہے کہ چپ کرکے میں تماشا دیکھوں گا'۔
انہوں نے کہا کہ 'میں آج سب کے سامنے کہہ رہا ہوں کہ میری جان کو بھی خطرہ ہے، کردار کشی کی الگ مہم تیار کی ہوئی ہے اور آپ دیکھیں گے ہر غلط قسم کی باتیں کریں گے'۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'مجھے تو قوم 45 سال سے جانتی ہے، میری بیوی اور ان کی دوست فرح کے خلاف مہم چلائیں گے'۔
'آخری گیند تک لڑوں گا'
تحریک عدم اعتماد میں تعداد پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'جب تک آخری گیند نہیں کھیلا جاتا ہار نہیں ہوتی، ہمیں آخری گیند تک لڑنا ہے، ہم پوری کوشش کریں گے کہ جو اندر جاکر ضمیر بیچ کر بیٹھے ہوئے ہیں، 20، 20 کروڑ اور 25 کروڑ روپے لے کر اپنے ملک سے غداری اور باہر کی سازش کا حصہ بنے ہوئے ہیں'۔
مزید پڑھیں: ایک طاقتور ملک نے ناراض ہوکر ہمیں کہا کہ آپ روس کیوں چلے گئے؟ وزیراعظم
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اس لیے پارلیمنٹ کی سلامتی کمیٹی میں سب کو دعوت دی تاکہ ان کو پتہ چل جائے کہ آپ حکومت گرانے میں بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں اور ان کو کوئی شک نہ رہے'۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے کہا کہ 'یہ پرچہ ٹھیک ہوا تو میں آپ کے ساتھ ہوں گا لیکن وہ ڈر کر آیا نہیں کیونکہ وہ اس سازش کا حصہ ہے اور انہوں نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا'۔
'پاکستان کے لیے فوری انتخابات بہتر'
قبل از انتخابات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ 'ہمارے جو لوگ گئے ہیں ظاہر اب ان کے ساتھ حکومت نہیں چلاسکتے اگر ہم اکثریت مل بھی جاتی ہے اور پاکستان کے لیے بہتر ہوگا کہ دوبارہ انتخابات کروائیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'اگر ہم یہ ووٹ جیت جاتے ہیں تو قبل از انتخابات میں جانے کی تجویز بڑی اچھی ہے اور اس حوالے سے اپنی حکمت عملی بنا رہے ہیں'۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ 'یہ لوگ اب حکومت کس منہ سے اور کیسے چلائیں گے، یہ سارا پلندہ اکٹھا ہوا ہے کہ فضل الرحمٰن صدر بنے گا، بلاول کو کچھ اور مریم کو کچھ بنادیں گے اور شہباز شریف اچکن سلا کر بڑی دیر سے انتظار کر رہا ہے کہ میں وزیراعظم بن جاؤں گا'۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ ملک چلے گا کیسے، کبھی ملک بھی ایسے چلے ہیں کہ ملک میں بندر بانٹ ہوگی، اگر عمران خان ہٹ بھی جائیں تو یہ حکومت کیسے چلائیں گے'۔
'میں کہہ رہا تھا سیکیورٹی کا تجربہ کار آدمی کو سربراہی کرنی چاہیے'
میزبان نے سوال کیا کہ کہا جاتا ہے کہ 'اکتوبر میں ایک تعیناتی ہونی تھی وہاں پر آکر سول-ملیٹری تعلقات جو ون پیچ کا کہا جارہا تھا وہ کاغذ پھٹ گیا، جس پر وزیراعظم نے کہا کہ میرے خیال میں کسی بھی حکومت کی اس طرح ملیٹری اور حکومت کا تعاون نہیں ہوا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں کون سا باہر پیسہ بنا رہا تھا جو مجھے فوج سے خطرہ ہو، ہم ہمیشہ خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی کے معاملات اور سب پر ایک پیج پر تھے، کسی چیز پر ہمارا اختلاف نہیں تھا'۔
انہوں نے کہا کہ 'میرا تو جینا مرنا پاکستان میں ہے، میرا کون سا باہر پیسہ اور جائیداد پڑی ہوئی ہے، میں تو پاکستان کے ساتھ اوپر یا نیچے جاؤں گا'۔
وزیراعظم نے کہا کہ 'میری ذہن میں بھی نہیں آیا کہ کون اور کس کی ترقی ہوگی، وہ تو نومبر میں تھی، میں کابینہ کو جولائی سے کہہ رہا ہوں کہ سردیوں میں ہمارا سب سے مشکل دور ہے اور میں اس سے آگے سوچ نہیں رہا تھا'۔
کسی مخصوص شخصیت کی تعیناتی کے تاثر پر وزیرعظم نے کہا کہ 'میری پسند کی بات نہیں ہے، میں نے جنرل فیض کے ساتھ 3 سال کام کیا اور میں کہہ رہا تھا کہ سردیوں کا وقت ہمارےملک کے لیے سب سے مشکل ہے اور دیکھ لیں ایک مہینے میں جو غیراستحکام آیا ہے، ہماری معیشت اور روپیہ متاثر ہو رہا ہے اور یہ سب ہونا تھا'۔
انہوں نے کہا کہ 'میں ان کو کہہ رہا تھا سردیوں تک ان کو رکھنا چاہیے، مجھے تو افغانستان کا اور بھی زیادہ ڈر تھا کیونکہ اگر افغانستان میں سول وار ہوتی تو اس کا فال آؤٹ پاکستان پر آنا تھا'۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'اس لیے کہہ رہا تھا کہ پاکستان کے لیے جو سیکیورٹی کا تجربہ کار آدمی ہے اس کو سربراہی کرنی چاہیے کیونکہ مشکل وقت ہے، ان کا خیال مختلف تھا کہ ہماری فوج کے اندر اپنا ایک نظام ہے لیکن میرے ذہن میں نہیں تھا، مجھے کیا پتا تھا لیکن میں بطور چیف ایگزیکٹیو اپنے ملک کا سوچ رہا تھا'۔
انہوں نے کہا کہ 'وہ اور نکتہ نظر سے دیکھ رہے تھے میں اور دیکھ رہا تھا لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا کہ کس کو آرمی چیف ہونا چاہیے اور میرے ذہن میں آرمی چیف کا کبھی آیا ہی نہیں'۔