پیکا قوانین کے تحت ہتک عزت ناقابل سماعت جرم ہے، لاہور ہائیکورٹ
لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے بدھ کے روز فیصلہ سنایا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016(پیکا) کے تحت صرف قابل سماعت جرم کی صورت میں ایف آئی آر درج کرنی چاہیے اور وہ بھی تحقیقاتی قوانین کی تعمیل کے بعد کرنی چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس طارق سلیم شیخ نے اپنے فیصلے میں مشاہدہ کیا کہ ناقابل سماعت جرم کی صورت میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سرکل انچارج کو تفتیش کے لیے مجاز عدالت سے اجازت لینی چاہیے۔
مزید پڑھیں: پیکا قانون کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
یہ مقدمہ ایک وکیل منیر احمد بھٹی کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست سے متعلق ہے جنہوں نے لاہور کے ایک سابق جسٹس آف پیس کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کو چیلنج کیا تھا۔
وکیل نے کہا تھا کہ ان کے بھائی نے یوٹیوب کے ایک پروگرام میں ان کے خلاف کئی ہتک آمیز بیانات دیے، اس کے بعد انہوں نے لاہور میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کرائی جس پر انکوائری شروع کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد انکوائری افسر نے کوئی جواب نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ ایف آئی اے کو مدعا علیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینے کی درخواست کے ساتھ سابقہ جسٹس آف پیس سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔
تاہم، جج نے منیر احمد بھٹی کی درخواست کو نمٹاتے ہوئے انکوائری افسر کو ہدایت کی کہ وہ جلد از جلد انکوائری مکمل کریں اور پھر قانون کے مطابق کارروائی کریں، وکیل نے عدالتی حکم سے مایوس ہو کر ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی۔
اس میں ان کے درخواست گزار نے استدلال کیا کہ مدعا علیہ یعنی منیر احمد بھٹی کے بھائی نے قابل سماعت جرم کیا ہے اور اس لیے ایف آئی اے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا پابند ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'پیکا' ترمیمی آرڈیننس 2022 اسلام آباد، لاہور ہائی کورٹس میں چیلنج
ناقابل سماعت جرائم بد سلوکی، عوامی ناراضی وغیرہ ہیں اور ایسے جرائم میں پولیس افسر کو بغیر وارنٹ کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں ہے اور عدالت کی اجازت کے بغیر کسی شخص سے تفتیش نہیں کی جا سکتی، اس کے برعکس قابل سماعت مقدمات زیادہ سنگین ہیں اور ایک پولیس افسر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بغیر وارنٹ کے کسی کو گرفتار کر سکتا ہے اور عدالت کی اجازت یا اس کے بغیر بھی تفتیش شروع کر سکتا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے استدلال کیا کہ جسٹس آف پیس کے سابقہ عہدیدار نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کو مدنظر نہیں رکھا جس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی قابل سماعت جرم کی صورت میں کسی انکوائری یا تحقیقات کے بغیر فوراً ایف آئی آر درج کی جائے گی۔
تاہم ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کے الزامات زیادہ سے زیادہ پیکا کے سیکشن 20 کے تحت ایک جرم تشکیل دے سکتے ہیں جو ناقابلِ ادراک اور قابلِ تعمیل تھا لہٰذا اس سلسلے میں موقوف حکم کافی تھا۔
بیرسٹر وقاص اے میر نے عدالت کو بتایا کہ پیکا کے تحت 2018 کے تفتیشی قوانین ان کی تفتیش، استغاثہ اور مقدمے کی سماعت کے لیے ایک خصوصی طریقہ کار تجویز کرتے ہیں۔
اگر کوئی تنازع ہوتا ہے تو یہ دفعات کرمنل پروسیجر کوڈ پر غالب ہوں گی، انہوں نے دلیل دی کہ درخواست گزار کی جانب سے کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 154 کا حوالہ دینا نامناسب ہے۔
مزید پڑھیں: صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ مقدمے میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی کیونکہ شکایت میں قابلِ ذکر جرم کا ذکر نہیں ہے۔
اپنے فیصلے میں جسٹس شیخ نے کہا کہ ایف آئی آر کا اندراج تحقیقات شروع کرنے کے لیے شرط نہیں ہے۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ چونکہ سائبر کرائمز کو کسی ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کا جواز فراہم کرنے کے لیے کچھ ابتدائی تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا انویسٹی گیشن رولز 2018 کے رول 7(4) میں قانونی رائے اور ایف آئی اے زون میں ایڈیشنل ڈائریکٹر کی پیشگی منظوری کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
جج نے مشاہدہ کیا کہ پیکا اور انویسٹی گیشن رولز 2018 نے اس موضوع پر ایک خصوصی قانون تشکیل دیا ہے اور اس لیے کرمنل پروسیجر کوڈ میں وضع کردہ عام قانون پر یہ غالب ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 154 کا حکم ہے کہ جب کسی قابل سماعت جرم سے متعلق معلومات کسی پولیس اسٹیشن کے انچارج کو دی جاتی ہیں تو وہ اسے مقررہ کتاب یا رجسٹر میں درج کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پیکا آرڈیننس میں ہتک عزت سے متعلق ترمیم، عدالتی حکم سے متضاد
جج نے وضاحت کی کہ پیکا کے قوانین کے تحت اس کے برعکس ایف آئی آر کا اندراج کرنے سے قبل کچھ کارروائیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیس کی خوبیوں کے بارے میں، جسٹس شیخ نے مشاہدہ کیا کہ جسٹس آف پیس کے سابق عہدیدار نے انکوائری افسر کو درست طریقے سے اسے جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی اور فریقین کو نتائج کا انتظار کرنے کا کہا۔
انہوں نے عرضی خارج اور نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ اگر مبینہ جرم ناقابلِ سماعت ہے، تو کسی بھی صورت میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔