’جعلی شناختی کارڈ پر لین دین، ایف اے ٹی ایف سے مذاکرات میں مسئلہ ہے‘
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشفاق نے کہا ہے کہ جعلی شناختی کارڈز پر لین دین حکومت کے مذاکرات کاروں کے لیے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے ساتھ بات چیت کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ 35 کھرب روپے کے ٹیکسز سے متعلق کیسز جلد ہی نمٹائے جائیں گے کیونکہ عدلیہ نے اس مسئلے کو 'آؤٹ دی وے' حل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایل سی سی آئی) میں تاجر برادری سے بات کرتے ہوئے ایف بی آر کے سربراہ نے کہا کہ جب جعلی شناختی کارڈز پر اتنے بڑے پیمانے پر کاروبار کیا جاتا ہے تو بین الاقوامی برادری کے ساتھ بحث کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 50 ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط لازمی قرار
ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مسائل کو پیچیدہ بناتی ہے اس لیے ایک لاکھ روپے اور اس سے زیادہ کی مصنوعات خریدتے وقت خریدار کو اپنے شناختی کارڈ کی نقل دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
عدالتی مقدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمد اشفاق نے اسے سب سے اہم مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت دیگر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ’ملاقات کے دوران میں نے انہیں بتایا کہ 35 کھرب روپے کے ٹیکسز سے متعلق کیس عدالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نمٹایا جانا چاہیےجس پر مجھے یقین دلایا گیا کہ اس طرح کے تمام معاملات کو کچھ ہی عرصے میں حل کر لیا جائے گا، اس سلسلے میں اسلام آباد میں خصوصی بینچ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کو جی ڈی پی میں ٹیکس اور اخراجات کے درمیان فرق ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ صورتحال آئی ایم ایف اور دیگر اداروں سے قرض لینے پر مجبور کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: 50 ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر شناختی کارڈ کی شرط لازمی قرار
انہوں نے کہا کہ ہماری جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح تقریباً 12 فیصد ہے جب کہ جی ڈی پی میں اخراجات کا تناسب 20 فیصد ہے، اس فرق کو پُر کرنے کے لیے ہم قرض لیتے ہیں جو آخر کار ہمیں یا آنے والی نسلوں نے ادا کرنا ہیں، اس لیے ہمیں ٹیکس ادا کرتے ہوئے اپنے طرز زندگی اور کلچر کو بدلنا ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی سطح پر آمدنی پر ہمیشہ ودہولڈنگ ٹیکس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ بینک ٹرانزیکشن پر بھی لگایا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، ہم انکم ٹیکس کے نظام کی مضبوطی کے ساتھ اس عمل کو بتدریج ختم کر دیں گے۔
محمد اشفاق نے تاجر برادری کو بتایا کہ جلد ہی مزید ٹیکسز کی چھوٹ واپس لی جائے گی اور ایک سے 2 سال میں ٹیکس کی شرح کو معقول بنایا جائے گا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایف بی آر کا ریفنڈ سسٹم دنیا کے بہترین نظاموں میں سے ایک ہے اور ایس ٹی ریفنڈز 72 گھنٹے میں کلیئر ہو رہے ہیں، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آئندہ بجٹ میں ود ہولڈنگ ٹیکس کو معقول بنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں:بغیر شناختی کارڈ خریداری کی حد بڑھا کر ایک لاکھ تک کرنے کی تجویز
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے لاہور چیمبر کے صدر میاں نعمان کبیر نے کہا کہ فنانس سپلیمنٹری ایکٹ 2022 میں ٹیکس لگانے کے مختلف اقدامات معیشت اور صنعت کی ترقی پر منفی اثرات مرتب کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ درآمدی مشینری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ واپس لے لی گئی ہے جس سے بالآخر چھوٹے اور متوسط کاروبار اور برآمدات کو نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے مزید کہ اکہ حالیہ دنوں میں کاروبار کرنے کی لاگت میں زبردست اضافہ ہوا ہے، جسے کم کرنے کے لیے ہمیں قابل تجدید توانائی، خاص طور پر شمسی توانائی کا حصہ بڑھا کر بجلی کی پیداوار کی لاگت کو کم کرنے کے لیے اپنے انرجی مکس کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں سولر پینلز اور قابل تجدید توانائی کے آلات کی درآمد پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کرنے کا اقدام ہمارے انرجی مکس کو زیادہ لاگت سے موثر بنانے کے مقصد کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔