سائنس و ٹیکنالوجی

فیس بک پر 'پرتشدد پیغامات' کی اجازت دینے پر روس میں 'میٹا' کے خلاف تحقیقات کا آغاز

فیس بک، انسٹاگرام کی مالک کمپنی میٹا کے خلاف روسی شہریوں کے خلاف تشدد پر اکسانے پر مجرمانہ مقدمہ شروع کیا گیا ہے، تحقیقاتی کمیٹی

روس نے فیس بک کے مالک پلیٹ فارم میٹا کی جانب سے صارفین کو یوکرین کے ساتھ جنگ کے حوالے سے روسی فوج کے لیے موت کا مطالبہ کرنے کی اجازت دینے پر تفتیش شروع کردی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق روسی استغاثہ نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کو ایک 'انتہا پسند تنظیم' قرار دے اور کمیونیکیشن ریگولیٹر نے کہا کہ وہ میٹا کے انسٹاگرام تک رسائی کو محدود کر رہا ہے۔

روس کی تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ امریکی کمپنی میٹا، جو سماجی رابطے کی ویب سائٹس فیس بک اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی ہے، کے ملازمین کی جانب سے روسی فیڈریشن کے شہریوں کے خلاف قتل اور تشدد کے لیے غیر قانونی طورپر اکسانے کے سلسلے میں مجرمانہ اقدامات شروع کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:فیس بک کا روسی صدر کے خلاف تشدد پر زور دینے والی پوسٹس کی اجازت دینے کا فیصلہ

واضح رہے کہ مذکورہ کمیٹی براہ راست روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو رپورٹ کرتی ہے، فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ فوجداری مقدمے کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔

رائٹرز کی جانب سے معاملے پر تبصرہ کی درخواست کے جواب میں میٹا کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔

قبل ازیں یوکرین میں روس کی جنگ کے دو ہفتے بعد، میٹا کے ترجمان نے گزشتہ روز کہا تھا کہ کمپنی نے سیاسی تقریر کے لیے اپنے قوانین میں عارضی طور پر نرمی کی ہے، قوانین میں نرمی کے بعد "روسی حملہ آوروں کی موت جیسی پوسٹس کی اجازت دی گئی ہے جبکہ روسی شہریوں کے خلاف پرتشددمطالبوں کی اجازت نہیں دی گئی۔

میٹا کا کہنا ہے کہ عارضی تبدیلی کا مقصد سیاسی اظہار کی ایسے پہلوؤں کی اجازت دینا ہے جو عام طور پر اس کے قوانین کی خلاف ورزی تصور ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:روس نے فیس بک اور اس کی ذیلی ایپس پر پابندی عائد کردی

میٹا کے نگران بورڈ کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین میں جنگ کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ میٹا کس طرح اس پر رد عمل دے رہا ہے۔

رائٹرز کو میڈیا سے دستیاب ہونے والی ای میلز سے معلوم ہوتا ہے کہ یو ایس کمپنی نے عارضی طور پر ایسی پوسٹوں کی اجازت دی تھی جو روسی صدر پیوٹن یا بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی موت کا مطالبہ کرتی ہیں۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے کہ یہ سچ نہیں ہوگا کیونکہ اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کمپنی کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے انتہائی فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے۔

معلوماتی جنگیں

روس ایک سال سے زیادہ عرصے سے غیر قانونی مواد کی تشہیر کی اجازت کا الزام لگا کر بار بار جرمانہ عائد کرتے ہوئے گوگل اور ٹوئٹر سمیت دیگر بڑی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اثر و رسوخ کو قابو کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:فیس بک، ٹوئٹر، گوگل اور دیگر کمپنیوں نے بھی روس پر پابندیاں لگادیں

لیکن روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد جس طرح بین الاقوامی سطح پر مذمت اور بے مثال پابندیاں سامنے آئی ہیں اس سے معلومات کی جنگ کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس ولادیمیر پیوٹن کی وفاداری کے ساتھ سختی سے کنٹرول شدہ سرکاری میڈیا لائن کے بر خلاف اختلاف رائے کا موقع فراہم کرتی ہیں، روسی میڈیا کے مطابق ماسکو کو یوکرین میں روسی زبان بولنے والے افراد کی نسل کشی کے خلاف 'خصوصی فوجی آپریشن' شروع کرنے پر مجبور کیا گیا۔

تحقیقاتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ فیس بک کا اقدام انتہا پسندانہ سرگرمیوں کے لیے عوامی مطالبات کے خلاف روسی فوجداری قانون کے آرٹیکلز کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔

ریاستی پراسیکیوٹر کے دفتر کا کہنا تھا کہ میٹا کمپنی کی انتظامیہ کے اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیاں جائز ہیں، بلکہ ان کا مقصد روسی فیڈریشن کے شہریوں کے خلاف نفرت اور دشمنی کو ہوا دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین پر حملہ: یوٹیوب نے روسی چینلز پر اشتہارات کی کمائی بند کردی

بیان میں کہا گیا ہے کہ میٹا کو ایک انتہا پسند تنظیم کے طور پر تسلیم کرنے اور روس میں اس کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے لیے عدالت میں درخواست دی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ فیس بک کی پالیسی میں ممکنہ تبدیلی تشویشناک ہے۔

ترجمان الزبتھ تھروسل کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت ہی تشویشناک مسئلہ ہے کیونکہ اس میں نفرت انگیز تقریر پیدا کرنے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس کی اجازت دینے کا ایک ایسا خطرہ ہوتا ہے جو عام روسیوں کی جانب جاتا ہے۔

تحقیقاتی ادارے انسائیڈر انٹیلی جنس کے مطابق میٹا کی فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ سبھی سروسز روس میں مقبول ہیں، جن کے گزشتہ سال بالترتیب 75 لاکھ ، 5 کروڑ 8 لاکھ اور 6 کروڑ 7 لکھ صارفین تھے۔

یہ بھی پڑھیں:روس کا یوکرین پر حملہ، دفاعی اثاثے تباہ کرنے کا دعویٰ، مرکزی ایئرپورٹ کے قریب دھماکے

گزشتہ ہفتے، روس نے کہا تھا کہ وہ ملک میں فیس بک پر پابندی لگا رہا ہے جس کے جواب میں فیس بک نے کہا کہ اس پلیٹ فارم پر روسی میڈیا تک رسائی کی پابندیاں ہیں۔

روسی کمیونیکیشن ریگولیٹر کا کہنا ہے کہ وہ اب انسٹاگرام تک رسائی کو بھی محدود کر رہا ہے۔

انسٹاگرام جیل میں بند ولادیمیر پیوٹن کے مخالف الیکسی ناوالنی کا ایک پسندیدہ پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے اپنی ایک پوسٹ میں انہوں نے اپنے وکلاء اور حامیوں ایک پیغام دیا، پیغام میں انہوں نے روسیوں سے یوکرین کی جنگ اور اس ہفتے کے آخر میں روسی صدر کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شامل ہونے کا مطالبہ کیا۔

روس کی آر آئی اے نیوز ایجنسی نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ واٹس ایپ قانونی اقدامات سے متاثر نہیں ہوگا کیونکہ اس میسجنگ ایپ کو رابطے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے نہ کہ معلومات پوسٹ کرنے کا۔

بھارت جیسا غیرذمہ دار ملک حساس ایٹمی صلاحیت کیسے رکھ سکتا ہے، معید یوسف

ثنا جاوید کی حمایت میں بھی شوبز شخصیات سامنے آگئیں

پنڈی کی پچ اور پاکستان کا اعترافِ جرم