پاکستان

پاکستان کا 10 بھارتی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر اعتراضات اٹھانے کا فیصلہ

پکال دل، لوئر کلنائی ہائیڈرو پراجیکٹس سمیت 10منصوبوں پر تشویش ہے جن پر بھارت سے جواب طلب کیا جائے گا، انڈس واٹرز کمیشن پاکستان

شیڈول کے مطابق یکم سے 3 مارچ تک اسلام آباد میں ہونے والے مستقل کمیشن برائے انڈس واٹرز ( پی سی آئی ڈبلیو) کے سالانہ اجلاس میں بھارت کی جانب سے 10 نئے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر پر پاکستان کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جانے کا امکان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سندھ طاس معاہدہ 1960 کے معاہدے کے تحت پاکستان کے کمشنر برائے انڈس واٹر کے دفتر کی منعقد کردہ پی سی آئی ڈبلیو کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی کمشنر برائے انڈس واٹرز کی سربراہی میں 10 رکنی وفد واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچا۔

پاکستان کے کمشنر برائے انڈس واٹر کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بھارتی کمشنر پی کے سکسینا کی سربراہی میں آنے والے بھارتی وفد میں تین خواتین افسران بھی شامل ہیں، بھارتی وفد واہگہ بارڈر لاہور کے راستے پاکستان میں داخل ہوا اور پھر اسلام آباد پہنچا۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان اور بھارت کا انڈس واٹر مسائل حل کرنے کیلئے کوششیں کرنے پر اتفاق

ایک ہزار میگاواٹ کے پکال دل اور 48 میگاواٹ کے لوئر کلنائی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پر پہلے سے ہی زیر بحث اعتراضات کے علاوہ پاکستان کی جانب سے 10 پن بجلی منصوبوں کی تعمیر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

جن منصوبوں پر پاکستان کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ان میں ڈربک شیوک، نیمو چلنگ، کیرو، تماشا، کالاروس، بلتی کلن اسمال، کارگل ہنڈرمن، پھاگلا، کولن رامواری اور منڈی شامل ہیں۔

عہدیدار کا وفود کے درمیان ہونے والے اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ ان تمام منصوبوں پر بات چیت کو پی سی آئی ڈبلیو اجلاس کا حصہ بنایا گیا ہے، جس میں سید محمد مہر علی شاہ کی سربراہی میں پاکستانی انڈس واٹر کمیشن کی ٹیم اپنے اعتراضات کو دہرائے گی اور دورہ کرنے والے بھارتی وفد سے ان منصوبوں پر جواب اور جواز طلب کرے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ دونوں ممالک پکال دل اور لوئر کلنائی منصوبوں پر بھی بات چیت دوبارہ شروع کریں گے۔

مزید پڑھیں:بھارت کے متنازع پن بجلی منصوبوں پر بات چیت کا آغاز

پاکستانی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے وفود کے شرکا موجودہ سیزن کے دوران سیلاب کے بہاؤ کے بارے میں پیشگی معلومات کی ترسیل، دریائے ستلج میں پانی کے آزادانہ بہاؤ کو برقرار رکھنے، کمشین کے مستقبل کے پروگراموں، ملاقاتوں، دوروں اور معائنوں کو حتمی شکل دینے سے متعلق انتظامات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اجلاس کے ایجنڈا آئٹمز کے تحت شرکا پی سی آئی ڈبلیو کے گزشتہ اجلاس کے ریکارڈ کو حتمی شکل دیں گے اور اس پر دستخط بھی کریں گے۔

بھارتی دورے سے متعلق پاکستانی عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان میں قیام کے دوران بھارتی وفد کے اراکین کا کسی فیلڈ وزٹ یا معائنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، وفد صرف اجلاس میں شرکت کے لیے آیا ہے۔

اس سے قبل بھارتی وفد کا دورہ جنوری کے وسط میں طے کیا گیا تھا لیکن کورونا سے متعلقہ پابندیوں کے باعث بھارت کی درخواست پر اسے ملتوی کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:عالمی بینک کا پاک، بھارت پانی کے تنازع پر ثالثی کرنے سے انکار

سندھ طاس معاہدے کے تحت سالانہ اجلاس ہر سال 31 مارچ سے قبل دونوں ممالک میں باری باری منعقد ہوتے ہیں، پاکستانی وفد نے گزشتہ سال 23 سے 24 مارچ تک نئی دہلی کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔

گزشتہ اجلاس کے دوران شرکا نے پکال دل، لوئر کلنائی اور دیگر ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں کے ڈیزائن سمیت 19 میگاواٹ ڈربک اور 24 میگاواٹ نیمو چلنگ پلانٹس پر پاکستان کے اعتراضات اور ڈیٹا سے متعلق دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

اسی اجلاس کے دروران بھارتی وفد نے پاکستان کے ساتھ ایک ہزار میگاواٹ کے پکال دل اور 48 میگاواٹ کے لوئر کلنائی ہائیڈرو پاور پروجیکٹس سے متعلق کچھ معلومات، دستاویزات شیئر کی تھیں۔

اجلاس کے دروان متنازع کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے مقام کا پاکستانی ماہرین سے معائنہ کروانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

یوکرین معاملے پر اقوامِ متحدہ میں بحث، پاکستان کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ

کیریئر کے آغاز میں پرکشش بننے کیلئے سرجری کا مشورہ دیا گیا، دپیکا پڈوکون

بھارت سے آسٹریلین کرکٹر کو جان سے مارنے کی دھمکی، دورہ پاکستان کے خلاف سازش ناکام