اپوزیشن کے دباؤ کے باعث وزیراعظم، جہانگیر ترین سے رابطے پر مجبور
وزیر اعظم عمران خان نے مبینہ طور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دوری اختیار کرنے والے رہنما جہانگیر خان ترین سے رابطہ کی.
رابطے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش معلوم ہوتا ہے کہ کہیں پرانے رہنما اپوزیشن کے ساتھ نہ مل جائیں، جس کا اشارہ وزیر اعظم کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے ناراض رہنما سے اپوزیشن کے رابطوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی طرح چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکومت کے اہم اتحادی مسلم لیگ (ق) کے چوہدری برادران سے اپوزیشن کے ساتھ جاری مذاکرات کے بارے میں ان کا ذہن پڑھنے کے لیے رابطہ کیا۔
وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری سے جب وزیرِ اعظم عمران خان کے جہانگیر ترین سے رابطے سے متعلق سوال کیا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کی تردید یا تصدیق نہیں کرسکتے۔
یہ بھی پڑھیں:ہمارا مطالبہ ہے عدم اعتماد کے بعد فی الفور انتخابات ہوں، بلاول بھٹوزرداری
تاہم، وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اپوزیشن وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کی کوشش میں آخر کار ناکام ہوگی، انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے ایجنڈے کو سمجھنا مشکل ہے، اپوزیشن کا ایجندڈا اتنا پیچیدہ ہے کہ اس کے اپنے ارکان بھی کنفیوز ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ گچھ روز سے بظاہر بیمار جہانگر ترین علاج کے لیے لندن روانہ ہوگئے، ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ روانگی سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے ٹیلی فون پر ان سے رابطہ کیا اور ان کی خیریت دریافت ک۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اچھا اقدام تھا اور اس سے دونوں کے درمیان تعلقات کی بحالی میں مدد مل سکتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور جہانگیر ترین دونوں کی لندن میں موجودگی کے دوران ایک دوسرے سے براہ راست رابطہ بھی ہو سکتا ہے، شوگر اسکینڈل کے بعد وزیراعظم عمران خان اور جہانگر خان ترین کے تعلقات خراب ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:تحریک عدم اعتماد کی تیاری جاری ہے، جلد اعلان کریں گے، شہباز شریف
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی جہانگیر ترین کی صحت پر تشویش کا اظہار کیا اور ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا بھی کی۔
دو روز قبل وزیر داخلہ شیخ رشید نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم سے اپنے پرانے دوست سے بات کرنے کی درخواست کی تھی لیکن پی ٹی آئی کے کچھ ارکان نے اس خیال کی تائید نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک دوسرے کے سخت سیاسی مخالف مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) 14 سال بعد مل سکتے ہیں تو دو پرانے دوست عمران خان اور جہانگیر ترین کیوں نہیں مل سکتے۔
وزیر دفاع پرویز خٹک نے بھی دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کے 7 ایم این ایز حکمران جماعت سے رابطے میں ہیں اور وہ مناسب وقت پر اعلان کریں گے کہ اپوزیشن ارکان کو اپنی طرف کیسے لایا جائے، پرویز خٹک سمجھتے ہیں کہ اتحادی پی ٹی آئی کے ساتھ رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:تحریک عدم اعتماد، درکار اراکین کی تعداد پوری کرنے کیلئے اپوزیشن بھرپور سرگرم
لاہور میں چیئرمین سینیٹ سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ عوام نے پی ٹی آئی حکومت کو 5 سال کا مینڈیٹ دیا ہے اور ہم پارلیمانی روایات کو پامال نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہر جمہوری حکومت کو عوامی خدمت کے لیے دی گئی مدت پوری کرنے کا حق حاصل ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ جاری مشاورت اور ملاقاتیں سیاسی عمل کا حصہ ہیں، کوئی بھی فیصلہ پارلیمانی پارٹی سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں قومی مفاد سب سے اہم ہے اور بدلتی سیاسی صورتحال پر ہماری گہری نظر ہے، انہوں نے زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے امید ظاہر کی کہ چوہدری برادران مسلسل بدلتے سیاسی منظرنامے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ اس سیاسی ماحول میں کوئی راستہ نکال لیں گے، انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کی خیریت بھی دریافت کی۔
یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کیلئے درکار تعداد سے زیادہ لوگوں سے رابطے میں ہے، رانا ثنااللہ
ن لیگ کا وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا دعویٰ
پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے عدم اعتماد کی تحریک کے پیش نظر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری تیار کر لی ہے۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے پیش نظر قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے ایک گزشتہ تاریخ کی سمری تیار کر کے اس پر دستخط کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) نے تحریک عدم اعتماد سے متعلق اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے اور نواز شریف کی جانب سے حتمی فیصلے کا انتظار ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے وہ ارکان جن سے اپوزیشن رابطے میں ہے اور حکومتی اتحادی نواز شریف کے فیصلے کے منتظر ہیں، بلکہ عمران خان بھی نواز شریف کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر داخلہ شیخ رشید نے آنے والے دنوں میں جو سیاسی ڈرون حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، وہ حملہ درحقیقت اسمبلی تحلیل کرنا ہے۔