جلد انتخابات کا فیصلہ، تحریک عدم اعتماد کی راہ میں رکاوٹ
وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے میں حکومتی اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے میں نو جماعتی اپوزیشن اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو جس بڑی رکاوٹ کا سامنا ہے وہ یہ کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں جلد انتخابات سے متعلق فیصلہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نہ تو حکمران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اتحادی جماعتیں مثلاً مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم پاکستان اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) اور نہ ہی پیپلز پارٹی نئے انتخابات کے حق میں ہیں۔
پی ڈی ایم کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کے بعد جلد از جلد نئے انتخابات چاہتی ہے کیونکہ یہ ان کی پارٹی کے لیے موزوں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد، درکار اراکین کی تعداد پوری کرنے کیلئے اپوزیشن بھرپور سرگرم
پیپلز پارٹی اور حکومتی اتحادیوں کے ساتھ اتحاد میں مشکل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس مرحلے پر، تمام اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کے اتحادیوں کے درمیان طے پانے والا اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا عمران خان حکومت کو گرانے کے فوراً بعد انتخابات کرائے جائی یا اپوزیشن کی آنے والی حکومت اگلے سال کے آخر میں طے شدہ عام انتخابات تک باقی ڈیڑھ سال کی مدت مکمل کرے'۔
ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بدھ کے روز مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف (جنہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے ماڈل ٹاؤن میں ہوئے اجلاس میں شرکت کی) کو جلد انتخابات کا مطالبہ ترک کرنے کے لیے قائل کرنے کی پوری کوشش کی کیونکہ اس سے معاملات پیچیدہ ہو جائیں گے۔
آصف زرداری نے اجلاس میں کہا کہ (اپوزیشن کے اقدام کی کامیابی کے بعد) اسمبلیاں تحلیل کرنا غیر دانشمندانہ ہوگا۔
ذرائع کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں ہم حکومت میں ہیں اور مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت کے جانے کے بعد پنجاب بھی بالآخر اپوزیشن کے ہاتھ میں جائے گا، طے شدہ عام انتخابات تک کے عرصے کے دوران، زرداری نے مشورہ دیا کہ وہ معیشت کو ٹھیک کرنے اور گورننس کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کیلئے درکار تعداد سے زیادہ لوگوں سے رابطے میں ہے، رانا ثنااللہ
تاہم یہ معاملہ غیر حل شدہ رہا کیونکہ نواز شریف نے اسے دوسری ملاقات تک کے لیے مؤخر کر دیا۔
پیپلز پارٹی کے ایک ذریعے نے بھی تصدیق کی کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حق میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب آصف زرداری، جنہیں پی ڈی ایم نے حکومتی اتحادیوں کے ساتھ شرائط پر بات چیت کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، کو مسلم لیگ (ق) کے چوہدریوں نے کہا کہ جب یہ باہمی طور پر طے پا جائے گا کہ نئی حکومت عدم اعتماد کے اقدام کی کامیابی بقیہ مدت (اگلے سال کے آخر تک) پوری کرے گی تو وہ اپوزیشن کی پیشکش پر اس وقت غور کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آصف زرداری (عمران خان کو ہٹانے کی صورت میں)پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کر چکے ہیں۔
جب ان رپورٹس کے بارے میں پوچھا گیا کہ آصف زرداری نے پی ڈی ایم کے ساتھ اتفاق رائے کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی تو ذرائع نے کہا کہ کوئی بھی قلیل مدتی وزیر اعلیٰ یا دیگر عہدوں (حکومت میں) میں دلچسپی نہیں لے گا۔
آصف زرداری کی امپر جماعت اسلامی سے ملاقات
سابق صدر زرداری نے جمعرات کو جماعت اسلامی کی رضا مندی نہیں تو کم از کم ن کے دل جیت لیے جن کے پاس اپوزیشن کے منصوبے تحریک عدم اعتماد کے لیے پارلیمان میں دو اہم ووٹس ہیں۔
اندرونی ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی کی حتمی رضامندی چند روز کی بات ہو سکتی ہے کیونکہ اس کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس جمعرات کو تھا اور مرکزی شوریٰ کا اجلاس (آج) جمعہ سے شروع ہو رہا ہے۔
ذرائع کے بقول ایک پراعتماد آصف زرداری نے اگرچہ اس وقت اپوزیشن کے پاس موجود حتمی اعداد و شمار کو ظاہر نہیں کیا لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'ان کی طرف' اراکین کی کافی تعداد ہے اور جے آئی ہیڈ کوارٹر کے دورے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہر ووٹ کا شمار ہوتا ہے۔
انہوں نے جماعت سے یہ بھی کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی دونوں جماعتیں کراچی کی بہتری کے لیے تعاون کریں جو کہ جماعت کا سابق گڑھ ہے، جس پر جماعت اسلامی نے باآسانی سے اتفاق کیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی کا مونس الٰہی سے رابطہ
دریں اثنا، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مسلم لیگ (ق) کے وفاقی وزیر مونس الٰہی سے ملاقات کی اور وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی ممکنہ تحریک عدم اعتماد سے پیدا ہونے والی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
مونس الٰہی نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مجھے فون کیا اور ہم نے موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، میں نے ان سے کہا کہ سیاسی بات چیت اور مشاورت جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی فیصلہ کیا گیا ہے، ہم اپنے وعدوں کے پابند ہیں اور ان کا مکمل احترام کریں گے۔