ایران کے جوہری معاہدے کا مسودہ سامنے آگیا
عالمی طاقتوں کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے امریکا اور ایران کے درمیان معاہدہ تشکیل دیا جارہا ہے، تاہم معاہدے کے پہلے مرحلے میں ایران پر عائد تیل کی فروخت پر پابندیوں میں چھوٹ شامل نہیں ہے۔
ڈان اخبار میں خبر رساں ایجنسیوں کی شائع رپورٹ کے مطابق اصل معاہدہ متروک ہونے کا وقت ختم ہونے سے متعلق مغرب کی جانب سے جاری انتباہ کے باجود ایران، روس، چین، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین اور امریکا کے سفیر اب بھی معاہدے کے مسودے کی تفصیلات پر مذاکرات کر رہے ہیں۔
سفرا کا کہنا ہے کہ معاہدے کے متن کا بیشتر حصہ طے پاگیا ہے لیکن کچھ پیچیدہ مسائل طے ہونا ابھی باقی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خامنہ ای نے جوہری بم کے حصول کے ‘متضاد’ دعوے مسترد کردیے
اس کا مقصد ایران کے خلاف پابندیاں ہٹانے کے اصل معاہدے کی جانب لوٹنا ہے، اس میں وہ پابندیاں بھی شامل ہیں جن کے تحت ایران کے تیل کی فروخت میں کمی کی گئی ہے، جس کے سبب ایران کے لیے ایٹم بم کے لیے مطلوبہ تعداد میں یورینیم افزودگی کی طوالت میں اضافہ ہوا۔
ایران ان میں سے بہت سی پابندیوں کی خلاف ورزی کر چکا ہے اور 2018 میں اس معاہدے سے امریکا کی دستبرداری اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے جواب میں ان حدود سے آگے بھی بڑھا ہے۔
2015 کے معاہدے میں یورینیم کی افزودگی کو 3.67 فیصد فیزائل پیوریٹی تک محدود کیا گیا تھا لیکن ایران اب 60 فیصد تک افزودگی کر رہا ہے جو کہ ویپنز گریڈ کے تقریباً برابر ہے۔
مزید پڑھیں: ایران نے نیا میزائل تیار کرلیا، اسرائیل تک رینج کا دعویٰ
ایران کا اصرار ہے کہ اس کے پیچھے پرامن مقاصد ہیں اور وہ صرف سول استعمال کے لیے جوہری ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
تاہم مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ کسی اور ریاست نے جوہری ہتھیاروں کو تیار کیے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر افزودگی نہیں کی اور امریکا کے اس معاہدے سے پیچھے ہٹنے کے بعد سے ایران کی پیش قدمی کا مطلب ہے کہ 2015 کا معاہدہ جلد ہی مکمل طور پر بے وقعت ہو جائے گا۔
مذاکرات کی تفصیلات سے واقف 3 سفارت کاروں نے بتایا کہ باقی فریقین کی جانب سے منظوری کے بعد 20 صفحات پر مشتمل اس معاہدے کے مسودے کے متن میں سلسلہ وار نافذ کیے جانے والے اقدامات کی تفصیلات موجود ہیں، جس کا آغاز پہلے مرحلے میں ایران کی جانب سے 5 فیصد سے زائد افزودگی کو معطل کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا پابندیاں ہٹانے کیلئے امریکا سے سیاسی فیصلہ کرنے کا مطالبہ
دوسری جانب ایران کے سپریم لیڈر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کا ملک اپنے سویلین نیوکلیئر پروگرام کی ترویج کو تیز کرے گا۔
ٹیلی ویژن پر نشر تقریر میں آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایران کے لیے جوہری توانائی کی اہمیت پر زور دیا، تاہم ساتھ ہی ایک بار پھر واضح کیا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
آیت اللہ علی خامنہ ای کے بیان میں اشارہ واضح طور پر ویانا مذاکرات میں شامل ممالک کی جانب تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے حریف، نیوکلیئر توانائی پر پابندیاں لگا کر ہمارے جوہری توانائی کے معاملے کے خلاف سفاک رویہ اپنا رہے ہیں جبکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے پرامن مقاصد ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ ایران یہ عظیم اور اہم پیش رفت حاصل کرے۔