’ اثاثوں سے متعلق فیصلہ واپس نہ لیا تو امریکا سے متعلق پالیسی پر نظرثانی کریں گے‘
طالبان نے متنبہ کیا ہے کہ اگر امریکی صدر جو بائیڈن نے منجمد افغان مرکزی بینک کے 7 ارب ڈالر کے اثاثوں میں سے صرف نصف اثاثے واپس کرنے سے متعلق اپنا ’غیر منصفانہ‘ فیصلہ واپس نہ لیا تو وہ امریکا سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکا، افغانستان کے 7 ارب ڈالر منجمد اثاثوں میں سے صرف نصف اثاثوں کو بحال کرے گا تاکہ ملک میں انسانی بحران میں مبتلا افغان شہریوں کی مدد کی جاسکے، جبکہ بقیہ نصف اثاثے دہشت گردی سے متعلق طالبان کے مقدمات کے خلاف روکیں جائیں گے۔
طالبان کے ترجمان کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’اگر امریکا فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹا اور اشتعال انگیز کارروائیاں جاری رکھیں تو اسلامی امارات کو مجبوراً امریکا سے متعلق اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی‘۔
مزید پڑھیں: منجمد افغان اثاثوں کی 9/11متاثرین میں تقسیم افغان عوام پر ظلم ہے، حامد کرزئی
انہوں نے کہا کہ ’اسلامی امارات، امریکا کا غیر منصفانہ فیصلہ مسترد کرتا ہے جو تمام افغان شہریوں کے حقوق کی خلاف وزری ہے‘۔
جو بائیڈن کا منصوبہ ہے کہ افغانستان کے نصف اثاثے امریکا کے پاس ہی رہیں تاکہ 9/11 واقعے میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے امریکی متاثرین کی طرف سے قانونی چارہ جوئی جاری رکھی جاسکے۔
طالبان کے بیان میں کہا گیا کہ ’9/11 حملے کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں ہے‘۔
11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملےمیں کوئی بھی افغان شامل نہیں تھا، تاہم حملے کے منصوبہ ساز القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو طالبان حکومت کی جانب سے پناہ دی گئی تھی۔
بیان میں کہا گیا کہ اگر فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو امریکا ’بین الاقوامی الزامات‘ سامنا کرے گا افغان شہریوں کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بائیڈن کا افغانستان کے منجمد فنڈز سے 7 ارب ڈالر براہ راست عوام پر خرچ کرنے کا منصوبہ
افغانستان کے سرکاری میڈیا ’آر ٹی اے‘ کو دیے گئے علیحدہ انٹرویو میں بانی طالبان ملا عمر کے بیٹے اور قائم مقام افغان وزیر دفاع مُلا یعقوب نے اسے ’ظالمانہ‘ فیصلہ قرار دیا۔
مُلا یعقوب کا کہنا تھا کہ ’نائن الیون واقعے میں کوئی افغان ملوث نہیں ہے‘۔
یاد رہے حملے کے وقت ملا یعقوب کے والد طالبان کے سپریم رہنما تھے اور انہوں نے اسامہ بن لادن کو امریکی افواج کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔
مذکورہ حملے سے افغانستان میں 20 سالہ جنگ کا آغاز ہوا تھا جو گزشتہ سال امریکا اور بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد ختم ہوئی تھی، جس کے بعد طالبان نے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ حاصل کرلیا ہے۔