دنیا

ٹوئٹر، اظہار رائے پر پابندی میں حکومت کا اتحادی ہے، راہول گاندھی

مجھے ٹوئٹر انڈیا پر لوگوں نے مطلع کیا کہ حکومت کی طرف سے میری آواز کو دبانے کے لیے ان پر بہت زیادہ دباؤ ہے، راہول گاندھی

بھارت کی کانگریس پارٹی کے ڈی فیکٹو سربراہ راہول گاندھی نے امریکی کمپنی ’ٹوئٹر‘ سے اپنے اکاؤنٹ پر غیر معمولی سرگرمی کی شکایت کی ہے اور ٹوئٹر کو آزادی اظہار رائے پر پابندی میں حکومت کا نادانستہ اتحادی قرار دیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق راہول گاندھی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو کو ایک خط میں بتایا کہ ان کے ٹوئٹر فالوورز میں مزید اضافہ گزشتہ اگست میں اچانک رک گیا اور فالورز بڑھنے کی یہ تعداد ماہانہ سیکڑوں ہزاروں کی اوسط سے گر کر تقریباً صفر پر آگئی۔

انہوں نے 27 دسمبر کو لکھے گئے اور گزشتہ روز پارٹی کی طرف سے شیئر کیے گئے خط میں کہا کہ مجھے ٹوئٹر انڈیا پر لوگوں نے محتاط انداز مگر وثوق کے ساتھ مطلع کیا کہ حکومت کی طرف سے میری آواز کو دبانے کے لیے ان پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: پولیس کو ٹوئٹر کے سربراہ کے خلاف سخت کارروائی سے روک دیا گیا

انہوں نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ ٹوئٹر آزادانہ اور منصفانہ گفتگو کو روکنے میں نادانستہ حصہ بنا، لیکن یہ سوشل میڈیا فرم کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ بھارت میں ٹوىٹر آمریت کے فروغ میں فعال کردار ادا نہ کرے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت پر طویل عرصے سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کی حکومت کی جانب سے ایسے الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔

ٹوئٹر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر مواد ہٹانے کی درخواستوں کی تعداد کے لحاظ سے فہرست میں جاپان، روس اور ترکی کے بعد بھارت عالمی سطح پر چوتھے نمبر پر ہے جبکہ چین اور شمالی کوریا میں یہ ویب سائ بلاک ہے۔

مزید پڑھیں: مسلمان بزرگ شہری پر تشدد کے خلاف ٹوئٹس پر سوارا بھاسکر کے خلاف شکایت درج

گلوبل میڈیا واچ ڈاگ ’رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ نے گزشتہ سال بھارت میں کسانوں کے بڑے پیمانے پر احتجاج کے دوران سوشل میڈیا کی معطلی کو کھلی سینسرشپ کا حیران کن کیس قرار دیا تھا۔

بھارتی حکومت نے پچھلے سال سوشل میڈیا کے نئے قوانین متعارف کرائے تھے جن کے تحت سوشل میڈیا فرمز کو ملک کی خود مختاری، ریاستی سلامتی اور امن عامہ کو نقصان پہنچانے والی پوسٹس کو ہٹانے اور ان کو شروع کرنے والوں کی شناخت کرنے کا کہا گیا تھا۔

سوشل میڈیا کمپنیوں اور پرائیوسی ایکٹوسٹ نے اعتراض کیا کہ ان قواعد کے مبہم ہونے کا مطلب ہے کہ وہ حکومت پر تنقید کرنے والی پوسٹس بنانے والوں کی شناخت کرنے پر مجبور کیے جاسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ان قوانین کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔


یہ خبر 28 جنوری 2022 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ایک ووٹ کی اکثریت سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل سینیٹ سے منظور

بلال سعید اور ازابیل کیف کا گانا ’جدائیاں‘ ریلیز

متحدہ عرب امارات کا حوثیوں کے خلاف مضبوط دفاع کا عزم