ناظم جوکھیو قتل کیس: حتمی چالان جمع کرانے کے لیے ایک اور مہلت
کراچی کی مقامی عدالت نے ناظم جوکھیو قتل کیس میں حتمی چارج شیٹ کے اندراج کے لیے استغاثہ کو ایک اور مہلت دے دی۔
27 سالہ ناظم جوکھیو کو گزشتہ سال 3 نومبر کو کراچی کے علاقے ملیر میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کے فارم ہاؤس پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔
ان کے رشتے داروں نے جام اویس، ان کے بھائی اور پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم اور ان کے ساتھیوں پر ناظم کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
یہ معاملہ جوڈیشل مجسٹریٹ(ملیر) الطاف حسین کے سامنے اس وقت آیا جب پیر کو تفتیشی افسر کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 173 کے تحت ملزمان کے خلاف حتمی چارج شیٹ پیش کرنا تھی۔
تاہم تفتیشی افسر نے یہ کہتے ہوئے عدالت سے مزید وقت مانگا کہ حتمی چارج شیٹ محکمہ پراسیکیوشن میں ہے اور ابھی ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر احد ملک کی طرف سے اس کی چھان بین کرنا باقی ہے۔
عدالت نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے حتمی چارج شیٹ پیش کرنے کے لیے 25 جنوری کو مقرر اگلی سماعت تک وقت دے دیا۔
مزید پڑھیں: کراچی: ملیر میں رکن صوبائی اسمبلی کے فارم ہاؤس سے لاش برآمد
ناظم کے بھائی اور مقدمے میں شکایت گزار افضل جوکھیو نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ چوتھی بار تھا جب استغاثہ کو حتمی چارج شیٹ جمع کرانے کے لیے توسیع دی گئی۔
اس سے قبل 21 دسمبر کو استغاثہ نے چالان جمع کرانے کے لیے اس وقت توسیع کی درخواست کی تھی جب تفتیشی افسر نے 23 ملزمان کو نامزد کرتے ہوئے عدالت میں عبوری چارج شیٹ پیش کی تھی۔
عبوری چارج شیٹ میں تفتیشی افسر نے 6 زیر حراست ملزمان رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور ان کے 5 ملازمین مہر علی، حیدر علی، محمد معراج، جمال واحد اور عبدالرزاق کو نامزد کیا تھا۔
انہوں نے چارج شیٹ میں رکن اسمبلی عبدالکریم، ان کے دو غیرملکی مہمانوں، ان کے 4 ملازمین نیاز سالار، احمد شورو، عطا محمد، زاہیم اور ان کے 5 محافظوں سمیت 12 مشتبہ افراد کے نام بھی شامل کیے تھے البتہ رپورٹ میں ناموں کا ذکر نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل میں نامزد پانچ ملزمان احاطہ عدالت سے فرار
ان کے علاوہ عبوری ضمانت پر موجود پانچ ملزمان محمد خان جوکھیو، محمد اسحٰق جوکھیو، محمد سلیم سالار، دودو خان اور سومر سالار کو بھی چارج شیٹ کیا گیا تھا۔
تفتیشی افسر نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ لاش کے پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ اور ڈی وی آر فوٹیج ناظم کے فون اور یونیورسل سیریل بس کی فرانزک تجزیہ رپورٹس فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھیجے جانے کا ابھی تک انتظار ہے۔
ان بنیادوں پر انہوں نے جوڈیشل مجسٹریٹ سے عبوری چارج شیٹ قبول اور حتمی رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید 10 دن دینے کی درخواست کی تھی۔
عدالت نے اس سال 10 جنوری کو حتمی چالان جمع کرانے کے لیے ایک اور توسیع اس وقت دی تھی جب تفتیشی افسر چارج شیٹ پیش کرنے میں ناکام رہے تھے، انہوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ حتمی چارج شیٹ قانونی جانچ کے لیے محکمہ پراسیکیوشن کے پاس ہے اور طریقہ کار مکمل کرنے کے لیے مزید کچھ وقت درکار ہے۔
اس پر عدالت نے تفتیشی افسر اور پراسیکیوٹر کو 13 جنوری کو ہونے والی اگلی سماعت تک حتمی چارج شیٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کی نئی ٹیم تشکیل
13 جنوری کو عبوری ضمانت کے لیے عدالت میں پیشی کے موقع پر پانچ ملزمان ملیر کی عدالتوں کے احاطے سے اس وقت فرار ہو گئے تھے جب جج نے ان کی عبوری ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کردی تھی۔
دائرہ اختیار میں محدود ہونے کی وجہ سے ضمانت کی درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نوید احمد سومرو نے فیصلہ دیا تھا کہ ملزمان عدالت کے سامنے موجود ہیں اور ان کے ضمانتی مچلکے منسوخ کر دیے گئے ہیں اور اس کے بعد سماعت 17 جنوری تک ملتوی کردی گئی تھی۔
ناظم جوکھیو کا قتل کیس
کراچی کے علاقے ملیر میں 3 اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے ایک شخص کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
میمن گوٹھ کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) خالد عباسی نے بتایا تھا کہ ناظم سجاول جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام ہاؤس نامی فارم ہاؤس سے بدھ کی دوپہر ڈھائی بجے ملی جو ملیر کے جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کا فارم ہاؤس ہے۔
ایس ایچ او نے مزید کہا تھا کہ پولیس نے مقدمے میں ملوث ہونے کے شبہے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی: رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں مبینہ قتل، لواحقین کا دوسرے روز بھی احتجاج
مقتول کے بھائی اور کراچی کے علاقے گھگر پھاٹک کے سابق کونسلر افضل جوکھیو نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم پر اپنے بھائی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔
ان سمیت دیگر رشتے داروں نے یہ الزام ایک ویڈیو کی بنیاد پر لگایا تھا جو ان کے بقول ناظم نے ریکارڈ کی تھی، مذکورہ ویڈیو میں ناظم نے بتایا تھا کہ انہوں نے نے ٹھٹہ کے جنگشاہی قصبے کے قریب اپنے گاؤں میں تلور کا شکار کرنے والے کچھ بااثر افراد کے مہمانوں کی ویڈیو بنائی تھی جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
مذکورہ ویڈیو میں مقتول نے بتایا تھا کہ اس نے تلورکا شکار کرنے والے چند افراد کی ویڈیو اپنے موبائل فون پر بنائی تھی جس کی وجہ سے اس کا فون چھین لیا گیا اور مارا پیٹا بھی گیا تھا، انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ان کا فون واپس کر دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی تھی۔
تاہم فون کرنے کے باوجود بھی جب پولیس مدد کے لیے نہیں پہنچی اور شکار کرنے والے واپس چلے گئے تو وہ تشدد کی شکایت درج کرانے کے لیے مقامی تھانے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: گورنر سندھ کا ’وفاقی جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے کا عندیہ
مقتول نے ویڈیو میں بتایا تھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون آئے اور کہا گیا کہ وہ ویڈیو ڈیلیٹ کردیں یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا اگر انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کے ذمے دار وہ لوگ ہوں گے جن افراد کے گھر ’شکاری مہمان‘ ٹھہرے تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بدترین تشدد کی تصدیق
مقتول ناظم جوکھیو کا پوسٹ مارٹم ڈاکٹر محمد اریب نے کیا تھا جس میں انکشاف ہوا کہ سر سمیت پورے جسم پر بے شمار زخم تھے۔
بدترین تشدد کے باعث مقتول کو اندرونی طور پر خون کا رساؤ شروع ہوگیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق لاش پر سخت اور نوکیلی چیزوں سے تشدد کیے جانے کے نشانات تھے جبکہ نازک عضو پر بھی بری طرح مارنے کے نشان تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پورے چہرے پر سرخ اور جامنی رنگ کے متعدد زخم تھے جب کہ آنکھیں گہرے زخموں کے ساتھ سوجی ہوئی تھیں۔