پاکستان

وفاقی حکومت کی پنجاب سے نواز شریف کی رپورٹس کے جائزے کیلئے میڈیکل بورڈ کی درخواست

موجودہ صورتحال یہ عندیہ دیتی ہے کہ نواز شریف اب پاکستان واپسی کے لیے مکمل فٹ ہیں، اٹارنی جنرل آفس کا حکومت پنجاب کو خط

وفاقی حکومت نے سابق وزیراعطم نواز شریف کی بیماری کی صورتحال کی جانچ کے لیے میڈیکل بورڈ قائم کرنے کے لیے حکومت پنجاب سے درخواست کی ہے تاکہ ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹس پر ماہرانہ رائے لی جائے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان کے دفتر سے سیکریٹری محکمہ داخلہ کو خط لکھ کر طبی رپورٹس پر ماہرانہ رائے دینے کے لیے میڈیکل بورڈ کے قیام کی درخواست کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی زندگی اور صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، مسلم لیگ(ن)

خط میں کہا گیا ہے کہ جب نواز شریف بیرون ملک گئے تو دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کی حالت تشویش ناک ہے لیکن لندن پہنچتے ہی ان کی حالت میں نمایاں بہتری آئی اور ان کی سیاسی، سماجی اور تفریحی سرگرمیاں بلاتعطل جاری ہیں جن کو روزانہ کی بنیاد پر میڈیا میں رپورٹ بھی کیا جاتا ہے جس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اگر ماضی میں انہیں کوئی سنگین بیماری تھی تو اس کی کوئی علامات اب نظر نہیں آتیں۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ موجودہ حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف اب پاکستان واپسی کے لیے مکمل فٹ ہیں، جن کا بیان حلفی لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔

خط میں کہا گیا کہ نواز شریف کی صحت اور جسمانی حالت کے حوالے سے کوئی بھی نتیجہ ماہرین پر مشتمل ایک آزاد طپی پینل کی رپورٹ کی روشنی میں ہی نکالا جا سکتا ہے تاکہ اس بات کا بھی تعین کیا جا سکے کہ وہ وطن واپسی کے لیے فٹ ہیں یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف علاج کیلئے ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن پہنچ گئے

اٹارنی جنرل کے دفتر سے جاری خط میں حکومت پنجاب سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ میڈیکل پینل قائم کرے تاکہ نواز شریف کی صحت کے تعین اور وطن واپسی کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لیے جمع کرائی گئی دستاویزات کا جائزہ لیا جا سکے۔

نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر

العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایون فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آف شور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو 28 جولائی 2017 کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کی رپورٹ پر جس کو شک ہے وہ عدالت میں میرا سامنا کرلے، ڈاکٹر طاہر شمسی

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا، بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کردی۔

نئے ڈی جی کی آمد کے بعد وزیراعظم کا آئی ایس آئی سیکریٹریٹ کا پہلا دورہ، ملکی سلامتی پر بریفنگ

حریم شاہ کا بھاری رقم باہر لے جانے کا دعویٰ، منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع

مردوں میں بانجھ پن کی وجہ جاننے کے لیے بڑی پیشرفت